Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Khushbu Aur Badbu

Khushbu Aur Badbu

خوشبو اور بدبو

کئی جگہوں سے آتی سمل ہی انسان کو مدھوش کر دیتی ہے۔ جیسے کہا جاتا تھا کہ صمد بونڈ سے نشہ ہوتا ہے۔ مجھے اس دن یقین آیا جب گھر میں قالین فٹ کرنے والے آئے۔ بونڈ کی خوشبو سے میں سارا دن خوامخواہ ہنستا رہا۔ ذہن لائٹ لائٹ سا رہا۔ حتیٰ کہ بیگم نے ایک بھاری رقم کا مطالبہ کیا تو میں نے فوراً خوشی خوشی بٹوہ نکال لیا۔ وہ بھی یہ دیکھ کر ہنستی رہی۔ اس روز بچے بھی سست روی کا شکار رہے۔ کاؤچ پر ساتھ ساتھ بیٹھ کر اک دوجے کا منہ دیکھ دیکھ بلاوجہ ہنس دیتے۔ وہ تو اگلے روز نشہ اُترا۔ مجھے بیگم کے اخراجات پر غصہ آیا اس کو مجھ پر آیا۔ بچوں کو ایک دوسرے پر آیا۔ اسی شام میں یہ راز پا گیا کہ ان ساری خوشیوں کی محرک دراصل صمد بونڈ کی خوشبو تھی۔

اسی طرح اگربتیوں کی تیز خوشبو بھی دماغ کو ماؤف کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ ایک رات بیگم نے اچانک بولنا شروع کر دیا کہ گُلاب کی خوشبو آ رہی ہے۔ میں نے گہرے سانس بھرے تو ہوش گُم ہو گئے۔ واقعی گلاب جیسی تیز مہک آ رہی تھی۔ میں نے مارے حیرت کے اقرار کیا اور کہا کہ گلاب کہاں سے آ گئے؟

اس نے مجھے کیا ہی پیارا پیارا میٹھا میٹھا جواب دیا "گلاب کہاں سے آنے تھے۔ بزرگ آئے ہیں۔ ہمارے پردادا جو تھے وہ ولی کامل تھے۔ ان کی روح اپنی اولاد کے گھروں میں کبھی کبھی تب چکر لگاتی ہے جب ان کی اولاد پریشان ہو۔ مجھے لگتا ہے ایکدم جو خوشبو آئی ہے وہ بزرگ آئے ہیں"۔ یہ سُن کر میرے دانت بج اٹھے۔ میرے ناتواں بدن میں اتنی سکت تو نہیں کہ نیا محاذ اندرون خانہ کھول لوں۔ بستر پر لیٹے لیٹے آسمان کی جانب ہاتھ باندھ کر عرض کی " دادا جی اللہ دا واسطہ ٹُر جاؤ۔ ہور امتحان وچ نہ پاؤ مینوں۔ تُسی سچے او۔ اج تسی آپ آ گئے کل تہاڈی دھی نے کہنا اے کہ پردادا جی دے مزار تے چادر چڑھان کشمیر جانا فرض ہوگیا اے۔ مہربانی کرو۔ وزٹ شارٹ کرو"۔

بیگم کو لگا کہ بزرگوں کی توہین ہو رہی ہے۔ بولی "اگر بالکل ہی بے ایمان ہو چکے ہیں تو کم از کم چپ تو رہ سکتے ہیں"۔ اس کا مزاج بگڑنے لگا تو اس سے قبل مزید بگڑ جاتا میں نے کہا "او ہو کیا ہوگیا بیگم۔ دادا حضور تو کشمیری ہیں ناں کیونکہ آپ لوگ تو کشمیری ہو۔ ان کو پنجابی کی کیا سمجھ آنی؟"۔ سُن کر بولی "وہ بزرگ ہیں۔ ساری زبانیں سمجھتے ہیں"۔ میں نے فوراً نماز والی چوکی پر جا کر فریاد کی

مائی ہولی فادر، پلیز فارگیو می۔ آئی ایم جسٹ یور سٹوپڈ اگنورینٹ چائلڈ۔ مے گاڈ بلیس یو آلویز۔

بیگم کو پھر بھی تسلی نہیں ہوئی۔ اچانک پھر سے اک خوشبو کا جھونکا سا آیا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرا ناتواں بدن ڈر سے کانپنے لگا۔ بیگم بھی چلائی "دیکھا؟ آئی ناں پھر، ابھی پھر آئی ناں؟"۔ میرے سارے حواس الرٹ ہو گئے کہ رات کے اس وقت خوشبو کا جھونکا کدھر سے آ رہا ہے۔ کمرے کی کھڑکی کی جانب بڑھا جو آدھ کھلی ہوئی تھی۔ وہاں سے دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ برابر والی گھر کی عقبی گلی میں لگے ہوئے علم (اہل تشیع گھرانہ ہے) کی پختہ چوکھٹ پر آنٹی اگر بتیاں جلا کر گئی ہوئی ہے۔ میں نے دو تین لمبی لمبی سانسیں بھریں اور میٹروملن کی خوشبو نس نس میں اتار کر بیگم کو بلایا۔ اسے "معجزہ" دکھایا اور بولا "بیگم یہ خوشبو آ رہی تھی۔ یہ رہے آپ کے پردادا حضور"۔

بیگم تو پھر بیگم ہوتی ہے۔ اپنی شکست تھوڑا مانتی ہیں۔ کھڑکی بند کرتے کہنے لگی "بزرگوار کے پاس جنگل سے شیر آیا کرتا تھا۔ شیر ان کی کھولی کی رکھوالی کرتا تھا۔ جب وہ پردہ فرما گئے تو شیر ان کی قبر پر آتا رہا۔ پھر ایک دن شیر بھی پردہ فرما گیا"۔ یہ داستان سن کر میں نے بیگم کو کہا "مولا کا بڑا کرم ہوا کہ آج بابا جی نہتے ہی وزٹ پر آئے۔ اگر شیر بھی ساتھ آتا تو میرا کیا حال کرتا۔ تم کو یہ بات پہلے بتانا چاہئیے تھی۔ کچھ تو میری جان کی پرواہ کر لیتی"۔

ایسے ہی ایک بار بینکاک میں خوامخواہ ایک مساج سینٹر میں داخل ہوگیا۔ صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تھائی لینڈ کے مساج سینٹرز اندر سے کیسے ہوتے ہیں اور کیا کیا سروسز فراہم کرتے ہیں۔ داخل ہوتے ہی وہاں کی خوشبو سے میں بے سُدھ ہوگیا۔ ہوش آئی تو اچھا خاصہ بل بنا چکے تھے اخے فلاں فلاں فلاں سروس آپ کو دی اور آپ خود ہنس ہنس کر کہتے رہے کہ ہاں ہاں یس یس۔ پتہ نہیں وہ کیسی خوشبو تھی جو میرے حواس باختہ کر گئی تھی۔ مجھے بہت مہنگی پڑی۔ مارے شرم کے میں فوراً بل چکا کر نکل گیا۔

ایک صاحب سے کاسا بلانکا میں ملاقات ہوئی۔ وہ سپیشل مجھے ملنے کو تشریف لائے تھے۔ انہوں نے تیز ترین عطر چھڑکا رکھا تھا۔ عطر میری ناک میں گھس کر دماغ کو جا لگا۔ وہ صاحب جب ملاقات کرکے واپس لوٹ گئے تو میری بہت تعریف کرتے رہے۔ کہتے رہے "آپ تو انتہائی ہنس مکھ ہیں۔ ہنستے ہی رہتے ہیں اور بولتے کچھ بھی نہیں"۔ اب ان کو کیا بتاتا کہ بھائی صاحب سارا کمال تو آپ کے عطر کا تھا۔ مجھے بے خود سا کر گیا۔ وجد کی کیفیت طاری کر گیا۔ ہو سکے تو اس کے استعمال سے پرہیز کیا کریں۔

جہاں خوشبو انسان کو بہت متاثر کرتی ہے وہیں بدبُو بھی انسان کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ ایسے ہی اک بار میں ناٹکو کی بس سے گلگت جا رہا تھا۔ داسو میں بس رکی۔ سٹاپ پر ایک ہی واش روم تھا۔ ایک پنجابی مسافر فوراً بھاگ کر جا گھسا اور اگلے ہی لمحے ناک تھامے باہر نکلتے مجھے بولا "اوئے اندر کوئی نہ جاوے۔ کوئی نہ جاوے" اور پھر اس نے قے کر دی۔ یہ صورتحال دیکھتے ہی میں واپس بس میں اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ البتہ وہ جوان بقیہ سارا راستہ فانٹا ٹافیاں کھاتا رہا اور مجھے کہتا رہا "دل کچا پکا ہو ریا پا جی۔ توبہ توبہ۔ تُسی وی کھا لو۔ اے پہاڑی لوگ نیں۔ توبہ توبہ توبہ"۔ میرا دل اس کی حالت دیکھ کر "کچا پکا" ہونے لگا تو میں نے بھی اس سے دو فانٹا ٹافیاں لے لیں۔ میری رائے میں کئیں خوشبوئیں نشہ طاری کرتیں ہیں اور بدبوئیں اچھے بھلے نارمل دل کو بھی کچا پکا کر دیتی ہیں۔

دو سال قبل بیگم نے میرے مسلسل جھڑتے بالوں سے پریشان ہو کر ایک دیسی ٹوٹکا آزمانا چاہا۔ ایک خبیث قسم کی سمل والی مرہم سی تیار کی اور میرے سر پر لگا دی۔ اس کی بُو نے مجھے آپ سیٹ کر دیا۔ فوراً میں نے ایک گھنٹہ شاور لیا۔ بالوں کو تین بار شیمپو سے مل مل کر دھویا اور پھر جا کر مطمئن ہوا۔ شام کو میں کچھ سودا سلف لینے قریبی دکان پر گیا۔ واحد میں اس کا گاہک تھا۔ دکان والا سودا تولنے لگا اور پھر لمبا سانس کھینچ کر اپنے چھوٹے کو یکدم بولا "اوئے چیک کر، ایتھے اچار دی ڈبی کنے کھولی اے"۔ میں فوراً سودا لے کر نکل لیا اور گھر پہنچ کر پھر شیمپو پروگرام شروع کر دیا۔ رگڑ رگڑ کے کچھ بال مزید جھڑ گئے۔

Check Also

Desan Da Raja

By Syed Mehdi Bukhari