Eid Qurbaan Ki Mukhalfat
عید قربان کی مخالفت

عید قربان کا اعلان ہوتے ہی ہمارا ایک حساس طبقہ Animal Rights کے لیے پریشان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے ایسے مضامین، افکار و اقوال کے ساتھ مفکرین سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں جن کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنا بربریت اور وحشتناک عمل ہے۔ اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ اس رقم کا استعمال واٹر کولر لگوانے یا انسانیت کی فلاح کے کسی پراجیکٹ کے واسطے دان کر دیا جائے۔ بادی النظر میں بات کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کون ہوتے ہیں انسانوں کے بنیادی مذہبی عقائد اور مذہبی تہوار پر سوال اٹھانے یا اعتراض کرنے والے؟
اگر آپ ملحد ہیں یا تشکیک میں مبتلا ہیں تو آپ نہ کیجئیے اور وہی کریں جو آپ کو بہتر لگتا ہو۔ یہ کسی ایک مذہب کا معاملہ نہیں۔ قربانی کی تاریخ ہر مذہب میں ملتی ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب چاہے عبادات و عقائد میں مختلف ہوں مگر بہت کچھ مشترک بھی ہے۔ مثلاً مقدس مقامات کی زیارات، مقدس پانی، مقدس پتھر، چڑھاوا، تلقین اخلاقیات، خیرات اور قربانی۔
سامی مذاہب سے قبل انسان دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانی قربانی کرتے تھے لیکن شریعتِ ابراہیمی اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے تین بڑے مذاہب نے قربانی کی نوعیت بدل دی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا جو فیصلہ کیا اس کا ذکر تینوں مذاہب کی مقدس کتابوں میں تفصیلاً موجود ہے۔ فرق ہے تو صرف یہ کہ یہودی و عیسائی عقائد کے مطابق وہ اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو قربان کرنا چاہتے تھے جبکہ مسلم عقائد کے مطابق انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا تو رحمت خداوندی نے جوش مارا اور جبرئیل کو بھیج کر فرزند کی قربانی کی جگہ مینڈھا بھیج دیا۔
یہودیوں نے ہیکل سلیمانی کی تباہی تک اس واقعے کی یاد تازہ کرنے کے لئے بھیڑ اور بیل کی قربانی جاری رکھی۔ اس رسم کو عبرانی زبان میں "کربان" کہا جاتا تھا۔ لیکن ایرانیوں کے ہاتھوں ہیکل کی تباہی کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور اب یہودی عقائد کے مطابق قربانی کا سلسلہ تب بحال ہوگا جب قیامت کے نزدیک ایک نجات دہندہ (مسلم عقائد کی رو سے دجال) آئے گا اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا۔ البتہ آج بھی یومِ کپور (قربانی کا دن) کی دوپہر بعض یہودی گناہوں کے کفارے کے طور پر مرغ کی قربانی کرتے ہیں اور خیرات کرتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں میں سنتِ ابراہیمی کے اتباع میں حلال جانوروں کی قربانی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔
جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے تو اکثریت کا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰؑ نے صلیب پر چڑھ کے اپنے پیروکاروں کے گناہوں کا کفارہ دے دیا ہے لہٰذا الگ سے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ البتہ آرمینین چرچ کے پیروکاروں میں ایک مخصوص دن پر رسمِ کربانیہ ادا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر بھیڑ یا مرغ قربان کیا جاتا ہے۔ ہندو مت میں ویدوں میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ البتہ یہ قربانی صرف شاہی خاندان ہی کرسکتا تھا اور بعد ازاں یہ رسم بھی متروک ہوگئی۔
ہندوستان میں بدھ مت کے فروغ تک برہمن طبقے میں کالی دیوی کی خوشنودی کے لئے بیل یا بکرے قربان کیے جاتے تھے مگر بدھ مت نے اسے ایک ظالمانہ رسم قرار دیتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے لئے اسے ممنوع قرار دے دیا۔ تاہم کالی ماتا کے پیروکار آج بھی اپنے مخصوص مندروں میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور ان کا خون دیوی کے چرنوں پر چھڑکا جاتا ہے۔
جانوروں کی قربانی کا سب سے بڑا میلہ ہر پانچ سال بعد نیپال کے شہر بریا پور کے گادھی مائی مندر میں ہوتا ہے جس میں لگ بھگ پچاس لاکھ افراد پانچ لاکھ سے زائد جانوروں کی جھٹکا قربانی کرتے ہیں۔ یہ میلہ ایک ماہ تک جاری رہتا ہے۔ سب سے زیادہ تعداد میں بھینس اور بچھڑے قربان کیے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ قربانی کرنے والے اپنے عقیدے کے اعتبار سے خود گوشت نہیں کھا سکتے اس لئے جانوروں کا گوشت مختلف کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو بس مسلمانوں کی عید نظر آتی ہے یا باقی مذاہب کی رسم قربانی پر بھی لکھتے ہیں؟ میرے خیال میں جہاں بات انسانوں کے مذہبی عقائد یا تہوار کی آ جائے وہاں اس کا احترام کرنا چاہئیے۔ باقی آپ قربانی کریں نہ کریں، واٹر کولر لگوائیں یا جو بھی کریں وہ آپ کرتے رہیں۔ بس پبلک میں عید قربان کی مخالفت میں الٹا نہ لٹکا کریں۔
ہاں ہاں میں جانتا ہوں کہ کچھ حساس لوگ مجھے یہ احساس دلانے بھی آئیں گے کہ قربانی کے بعد آلائشوں اور گندگی کی صورت جو ہماری سڑکوں و گلیوں کی حالت بنتی ہے اس کا کیا تو وہ ایک الگ موضوع ہے اور اس کا تعلق لوگوں کی نفسیات سے ہے۔ اس میں دین کا کوئی قصور نہیں جو کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔