Chaye, Tambaku Aur Cigarette
چائے، تمباکو اور کرکٹ

کمپنی بہادر اپنے ساتھ تین "سوغاتیں" بھی لائی۔ چائے، تمباکو اور کرکٹ۔ پنجاب و سندھ کے باسی سرکار انگلیشیہ کے فرمانبردار رہے البتہ پشتون و بلوچ قبائل پر کمپنی بہادر مکمل غلبہ نہ پا سکی۔ پشتون و بلوچ خطے کو مکمل طور پر زیر کرنے میں کمپنی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ پشتون انگریز کے لباس، لائف سٹائل، زبان الغرض ہر شے سے نفرت کرتے تھے۔ پشتونوں کی روایات اپنی تھیں اور وہ ان سے مضبوطی سے جڑے رہے۔
پنجاب و سندھ کے باسیوں کو کمپنی بہادر نے دفتری کاموں میں مصروف کیئے رکھا۔ یہ پتلون بھی پہننے لگے۔ گورا سرکار پائپ اور سگار پیا کرتی تو ان کی دیکھا دیکھی پنجابی و سندھی بھی تمباکو نوشی کرنے لگے۔ یہ خود کو "لاٹ صاحب" کہلوا کر پھولے نہیں سماتے تھے۔ دوسری جانب پشتونوں نے جتھے بنا کر مزاحمت جاری رکھی۔ پتلون پہننا اور تمباکو نوشی کرنا ان کی روایات کے نہ صرف خلاف تھا بلکہ سارے پشتون خطے میں حرام سمجھا جاتا تھا۔ تمباکو سے پشتونوں کی نفرت شدید تھی۔
سندھی زمینیوں کی دیکھ بھال میں رہے، پنجابیوں نے کار سرکار میں حصہ لے لیا۔ ان کا لائف سٹائل بدلنے لگا۔ لسی کی جگہ چائے نے لی، ہاتھ میں سگریٹ آیا اور ٹانگوں پر پتلون چڑھنے لگی۔ رفتہ رفتہ سوٹ و بوٹ کلچر کا حصہ بنتے گئے۔ کٹلری کا استعمال ہونے لگا۔ دسترخوان ڈائننگ ٹیبل میں بدل گئے۔ انگلیوں میں چمچ و کانٹے سمائے۔
بلوچ و پشتون اپنی روایات سے جڑے رہے۔ دسترخوان جوں کا توں رہا، جنگلی بوٹیوں سے بنا قہوہ ہی ان کا مشروب بنا رہا۔ شلوار قمیض اور پگڑی ان کا لباس رہا۔ انگریزی بولنا انہوں نے نہ سیکھا نہ اس زبان میں ان کی دلچسپی پیدا ہو سکی۔ سرکار انگلیشیہ سے نفرت ان کے خون میں موجزن رہی۔
عجب خان آفریدی 1885ء میں درہ آدم خیل میں پیدا ہوئے۔ پشتون قبائل انگریز سرکار کے کاروانوں پر حملہ آور ہوتے اور ساز و سامان لوٹ کر لے جاتے۔ اس کی ایک وجہ پشتون قبائل کی برطانوی سامراج سے نفرت تھی۔ سرکار برطانیہ ان قبائل کو باغی سمجھتی تھی اور ان کی سرکوبی کے لیے چھاپہ مار دستے تیار کرتی، مگر یہ قبائل جنگجو جوانوں پر مشتمل ہوتے جس کی وجہ سے برطانوی سپاہیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔
کوہاٹ گریژن کبھی بھی پشتونوں کو زیر نہیں کرسکی تھی۔ دن بہ دن بڑھتی شورش کی وجہ سے انگریز فوج نے اردگرد کے دیہاتوں کی ناکہ بندی کی اور گھر گھر تلاشی کا کام شروع کیا۔ پشتون روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے گورا سرکار قبائیلیوں کے گھروں میں داخل ہوئی اور خواتین کو گھر سے باہر نکال کر تلاشی کا کام شروع کیا۔ پشتون روایات میں خواتین کی چادر اور چاردیواری کی بہت اہمیت ہے۔ عجب خان آفریدی ان دنوں اپنے علاقے سے دُور تھے۔ جب واپسی پر انہیں اس واقع کی خبر ملی تو انہوں نے اپنی والدہ سے عہد کیا کہ وہ اس بے عزتی کا بدلہ انگریز فوج سے ضرور لیں گے۔
عجب خان نے لشکر تیار کیا اور کوہاٹ گریژن پر حملہ آور ہوکر میجر ایلس جو تلاشی کے دوران اپنی پلٹون کو کمانڈ کر رہا تھا اسی کی بیوی کو قتل کر دیا اور بیٹی مولی ایلس کو اغوا کرکے قبائلی علاقے میں منتقل کردیا۔ عجب خان نے مس مولی کو اپنی والدہ و بہن کے سپرد کیا تاکہ وہ اس کی اچھی دیکھ بھال کرسکیں۔
اس واقع اور اغوا کی سنسنی خیز خبریں برطانیہ کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ کوہاٹ کے ڈپٹی کمشنر نے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے عجب خان آفریدی سے مس مولی کی واپسی کے لیے مذاکرات شروع کیے اور بالآخر 1923ء کی صبح مس مولی کو اس شرط پر واپس کردیا گیا کہ آئندہ سے انگریز فوج قبائلیوں کے گھروں پر حملہ آور نہیں ہوگی اور ان کی خواتین سے بدسلوکی نہیں کرے گی۔
مس مولی کی واپسی کے بعد انگریز ڈاکٹر نے ان کا طبّی معائنہ کیا۔ مس مولی نے ڈپٹی کمشنر کو بیان ریکارڈ کروایا کہ اس کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہیں کی گئی بلکہ وہ عجب خان آفریدی کی مہمان نوازی اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ بعد ازاں مس مولی کو اس کی مرضی کے خلاف برطانیہ بھیج دیا گیا۔ وقت گزرا مگر مس مولی عجب خان کو نہ بھول پائی۔ 1984ء میں اس واقع کے 61 سال بعد مس مولی نے سرکاری پروٹوکول میں کوہاٹ کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران انہوں نے عجب خان آفریدی کی رہائش گاہ کا وزٹ کیا اور عجب خان کو یاد کرکے رو پڑیں۔ شاید اسٹاک ہوم سینڈروم کی یہ ایک بہترین مثال تھی کہ جب انسان کو اپنے اغواکار سے ہمدردی و محبت ہو جاتی ہے یا شاید عجب خان آفریدی کی ذات سے مس مولی کو سچ میں محبت ہوگئی تھی۔
انہی دنوں جب میجر ایلس کوہاٹ و درہ آدم خیل کے اطراف عجب خان آفریدی کی تلاش میں چھاپے مارتا پھر رہا تھا اس کی کمپنی تھکن و بیزاری کا شکار ہونے لگی۔ اپنی پلٹون کو تازہ دم رکھنے کی خاطر میجر ایلس نے کوہاٹ گریژن میں کرکٹ میچ کا انعقاد کیا۔
اس کھیل کو دیکھنے اطراف سے لوگ جمع ہونے لگے۔ وہ پشتون جو دل میں انگریز سے نفرت رکھتے تھے وہ کرکٹ کے کھیل کو دیکھ کر خود کو روک نہ پائے۔ ان کی کرکٹ سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی۔
وقت بدلا، دنیا گلوبل ویلج بنتی گئی۔ اس گلوبلائزیشن نے ہی ہم کو بہترین پشتون کرکٹر دیئے۔ میں خود پنجابی ہوں اور خود سموکر بھی مگر نہ جانے کیوں جب بھی میں کسی پشتون جوان کو سگریٹ پیتے دیکھتا ہوں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ وقت کے ساتھ لباس بھی بدلا، پتلون پہننا مجبوری بنتا گیا۔ آفس کا ڈریس بنتا گیا۔ اب چائے ملک کے کونے کونے میں پی جاتی ہے۔ سگریٹ، نسوار اور چرس پشتون بیلٹ میں عام ہے۔ روایات کو گلوبلائزیشن نگل گئی ہے۔
ایک بار پشاور نمک منڈی کے ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھا کر نکلا تو ایک پڑھا لکھا پشتون نوجوان بھاگا بھاگا آیا اور سگریٹ جلانے کو مجھ سے انگریزی میں بول کر لائیٹر مانگنے لگا۔ میں نے اسے لائیٹر تو دے دیا مگر ہنستے ہنستے پوچھا "تم عجب خان آفریدی کو جانتا ہے؟" اس نے میرا چہرہ یوں دیکھا جیسے میں نے اسے ڈرا دیا ہو۔ کچھ لمحے سوچتا رہا پھر بولا "ہم کسی عجب خان کو نہیں جانتا، اس کا علاقہ بتاؤ، پھر تم کو بتا سکتا ہے کہ اسے کہاں جا کر تلاش کرنا ہے!"۔۔