Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Budget Nama 2025

Budget Nama 2025

بجٹ نامہ 2025

بجٹ میں جہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اور پنشن میں سات فیصد کا اضافہ کیا گیا وہیں آن لائن اپنی رقم نکلوالنے پر ٹیکس بڑھا دیا۔ جہاں حکومت مہنگی بجلی دے رہی ہے وہیں سولر پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ ایک عام آدمی زندگی بھر جوڑ کے آلٹو ٹائپ کوئی چھوٹی گاڑی لینا چاہے تو اس پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کے ساتھ ایک فیصد کاربن ڈیوٹی لگا دی ہے۔ پراپرٹی سیکٹر کو اٹھانے کے لیے ٹیکسز میں رعایت دے دی ہے اور شرح سود کم کر دی ہے تاکہ لوگ پراپرٹی میں پھر انویسٹ کریں اور ایک ہی شعبہ پھلے پھولے۔ اس ملک میں مینوفیکچرر کو سہولت نہیں دی جاتی پراپرٹی سیکٹر ساری رقم کھا جاتا ہے۔ اس کو پھر نواز دیا اور امپورٹ (را میٹریل) جو مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے ضروری ہے اس پر مزید ٹیکسز لگا دیے۔ ڈھائی ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ کے لیے ہیں مگر ای کامرس پر اٹھارہ فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ یعنی ای کامرس سٹارٹ آپ لینے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور غریب کو بھیک کی جانب راغب کر رہے ہیں۔

ماہانہ تین لاکھ تیتس ہزار سے کم کمانے والوں کے لیے انکم ٹیکس سلیب کم ضرور کی ہے مگر رقم کی منتقلی اور وڈرال پر ڈائریکٹ ٹیکسز لگا دیے ہیں۔ اسی طرح ڈائیریکٹ اور ان ڈائیریکٹ ٹیکسز ہر اس شے پر عائد ہو گئے جو آج کے دور میں بنیادی ضرورت ہے۔ گاڑی، سولر پینلز، آن لائن شاپنگ۔ کیا شاندار بجٹ ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ایک ہاتھ سے تھپکی دے کر دوسرے ہاتھ سے دھکا دے دیا ہے۔ البتہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے واسطے نان فائلر کیٹیگری ختم کرنا اچھا فیصلہ ہے۔ اس ملک میں نان فائلر پراپرٹی، گاڑی کی خریداری اور بینک ٹرانزیکشنز کے واسطے اضافی ٹیکسز دے دیتا مگر وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتا تھا۔

ماہانہ تین لاکھ تیتس ہزار سے زائد کمانے والوں کے لیے 27.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے مگر ترقیاتی بجٹ کے نام پر اللوں تللوں کے لیے کوئی حد نہیں۔ اس کے واسطے ایک ہزار ارب روپے کا وافر بجٹ ہے۔ ریلوے جیسے خسارتی ادارے کے لیے ایک سو بیس ارب دے دیے لیکن تعلیم یا یونیوسٹیوں کی گرانٹ کے لیے پینسٹھ ارب ہیں۔ زراعت کا کوئی والی وارث نہیں۔ بڑا کاروباری طبقہ ایک بار پھر بجٹ کی زد سے بچ نکلا اور چھوٹا کاروباری ٹیکس لوڈ اٹھائے پھرے گا۔ تنخواہ دار طبقہ پہلے بھی معیشت کا بوجھ ڈھو رہا تھا اب بھی اسے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ پٹرول پر کاربن لیوی کی مد میں مزید سرچارج اور وفاق کو بجلی پر سرچارج بڑھانے کا اختیار دے دیا ہے۔ فیول اور بجلی مزید مہنگے ہوں گے۔

میری ہوش کے ستائیس اٹھائیس سالوں میں ہر حکومت نے بجٹ کے بعد یہی کہا کہ اس بار قوم کو کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا اگلے سال حالات بہتر ہونے لگیں گے۔ یہ کڑو گھونٹ ایلیٹ نے کبھی خود نہیں بھرا۔ اس ملک میں صرف دو طبقے ہیں جو سکون سے جی رہے ہیں اور فکر سے آزاد ہیں۔ ایک خطِ غربت سے نیچے بستا طبقہ یا لیبر کلاس جس کی امیدیں ٹوٹ چکیں اور اس کا کُل زور اسی پر ہے کہ کسی طرح وہ آج کا دن دو وقت کی روٹی کھا کر گزار لے۔ محنت مشقت کرے، بھیک مانگے یا جگاڑ لگائے مگر رات کو وہ چین سے لمبی تان کے سو جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ امیر یا ایلیٹ یا بزنس کلاس ہے۔ وہ کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ ٹیکسز کا بوجھ صارف نے ڈھونا ہوتا ہے۔ دولت مزید دولت کو جمع کرتی ہے۔

یہ تو لوئر مڈل یا اپر مڈل کلاس ہوتی ہے جو متاثر ہوتی ہے۔ یہی تنخواہ دار یا چھوٹا کاروباری طبقہ ہوتا ہے۔ اس نے کمانا ہے، جوڑنا ہے، گھر بنانے کی خواہش اور ایک فیملی کار کے لیے ساری عمر مشقت کرتا ہے۔ اس نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی تگ و دو میں عمر گزار دینا ہوتی ہے۔ یہ لوئر مڈل سے اپر مڈل میں جانا چاہتا ہے اور اپر مڈل کلاس کی تگ و دو امیر بننے کی ہوتی ہے۔ وہ اپنا شمار آسودہ طبقے میں کرانا چاہتے ہیں۔ پچیس کروڑ کے اس ملک میں ساڑھے نو سے دس کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ باقی سب لوئر اپر مڈل کلاس ہے اور ان سے اوپر امیر طبقہ جو شاید اس آبادی کا دو فیصد یا چند لاکھ کی تعداد میں ہے۔ یہ جو چودہ کروڑ مڈل کلاس ہے یہی بجٹ کی مار سہتی ہے۔ اس میں آپ بھی ہیں، میں بھی ہوں۔ فرد کی معاشی ترقی نہیں ہوگی تو ملکی معیشت کی کیسے ہوگی اگر عوام سے نچوڑ کر خزانہ بھرنا ہے تو عوام کیونکر اس نظام کو پسند کرے گی۔ اسی سبب ہر شخص ملک سے ہجرت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ جس کے سینگ سماتے ہیں وہ چلا جاتا ہے۔

صحت، تعلیم، انصاف، چھت، خوراک۔ ان پانچ بنیادی انسانی ضروریات کو معیار بنا لیں تو معلوم ہوگا کہ نوے فیصد سے زائد شہریوں کو اس نام نہاد منصوبہ بندی سے کوئی فائدہ نہیں۔ نتیجتاً جس پر آج بجٹ کے نام پر تجزیاتی مغز ماری کی جارہی ہے اس میں نہ عزت محفوظ ہے نہ جان کی امان ہے اور نہ مستقبل کی ضمانت۔ کہنے کو آج کا کل بجٹ 17.6 کھرب روپوں کا بجٹ ہے (جس میں 6.2 کھرب خسارہ یا قرض کی اقساط کے مد میں ہے) لیکن شہری کی فلاح پر یہ ریاست گن کر بارہ روپے مہینہ خرچ کرتی ہے۔ ہاں، حکمرانوں کی حفاظت، عیش اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں و مراعات کے لیے وسائل اندھا دھند ہیں۔

کوئی حد نہیں، کوئی قدغن نہیں، ان پر نہ بجلی کا بل اثر کرتا ہے اور نہ سبزیوں اور دالوں کے بھاؤ۔ ان کی غذا مرغن ہے۔ صحت ایسی بھرپور کہ جیسے اکھاڑے سے نکلا ہوا پہلوان۔ بجٹ تو ایک کھیل ہے۔ اصل میں یہ فیصلہ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد کیا جاچکا تھا کہ یہاں کے عوام کو ہمیشہ اس اذیت میں مبتلا رکھنا ہے کہ ان کو ایک نوالے کی فراہمی بھی من و سلویٰ لگے۔ اتنے زخمی ہوں کہ طبیعت پوچھنے پر بھی ساری زندگی شکرگزاری میں تعریف کی تسبیح پڑھتے رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم سب اس بدحالی کا شکار ہوتے جس نے ہماری کمزور ترین امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے؟

بجٹ اس مفصل واردات کا حصہ ہے جو اس ملک پر قابض طبقے ہر سال ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر سیاسی و عسکری اشرافیہ میں کسی کو کاروبار، ریاست اور قوم کے حالات کو بدلنے میں کوئی حقیقی دلچسپی ہوتی تو وہ یقیناً اسی استطاعت اور کامیاب منصوبہ بندی کا سہارا لیتے جس کے ذریعے انہوں نے ذاتی معاشی معاملات کو ایسے سنبھالا ہے کہ ہر طرف سے فائدہ کے سوا کچھ نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ نہ کوئی سہارا ہے نہ کوئی تنگی، جن تمام سالوں میں (بجٹ کے باوجود یا شاید بجٹ کی وجہ سے) پاکستانی عوام کی ہڈیوں سے ماس غائب ہوگیا اسی دوران بجٹ بنانے والے اور بجٹ کھانے والے فربہ اندام ہو گئے۔ ملک کی معیشت ڈوب گئی، ان کی دولت کے انبار آسمان کو چھونے لگے۔

حکومتی آفس میں وزیر بے تدبیر اور بے بس نظر آئے مگر اپنی صنعتوں اور ملوں میں ان سے کائیاں اور ماہر کاروباری دکھائی نہ دیا۔ ڈی ایچ ایز تو پھلتے پھولتے رہے مگر دفاع کا سارا بوجھ خزانے پر ہی رہا۔ یہ کیا ماجرہ ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنے میں ناکام افراد ذاتی دولت اکھٹا کرنے میں اتنے کامیاب ہو جاتے ہیں؟ بنیادی بات یہی ہے جو میں نے پہلے آپ کے لئے تحریر کر دی ہے۔ بجٹ قبضہ گروپ کا وہ ہتھیار ہے جو وہ ہر سال استعمال کرکے آپ کو اپنی خودساختہ مجبوریوں کے واویلے سے متاثر کرتے ہیں اور پھر تمام دن اپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کے اہتمام کرنے پر مامور ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو تبدیلی لانا ہوتی تو آج غریب کی اولاد جھگیوں میں مٹی پھانکنے کے بجائے دبئی اور لندن میں ارب پتیوں کے ساتھ ان کی اولادوں کی طرح مکمل آسائش میں نہ پل بڑھ رہے ہوتے؟

پھر بھی امید رکھنی چاہئیے کہ جیسے کاروباری مواقعے اور خالص برق رفتار منافعے پاکستان کی سول و عسکری ایلیٹ کو میسر ہو جاتے ہیں ایک دن ہمیں بھی یہ رعایتیں مل جائیں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے چوبیس کروڑ پچانوے لاکھ لوگ کم از کم سو برس زندہ رہیں۔

Check Also

Ye Panahgah Sirf Yahoodiyon Ke Liye Hai

By Wusat Ullah Khan