Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Behan Bhi To Maa Jaisi Hoti Hai

Behan Bhi To Maa Jaisi Hoti Hai

بہن بھی تو ماں جیسی ہوتی ہے

بہن بھی تو ماں جیسی ہوتی ہے، خاص کر تب جب اماں جلد گزر جائے۔ سات سال قبل میری سگی بہن نے پردیس میں ڈیرہ ڈالا تھا۔ فیملی امیگریشن پر وہ بمعہ شوہر کینیڈا چلی گئی تھی۔ اس کی شادی میں نے خود کی تھی۔ والد گزر چکے تھے، اماں کی طبیعت ناساز رہا کرتی تھی۔ وہ رینل فیلئیر میں مبتلا تھیں۔ گردے ناکارہ ہو چکے تھے۔ ڈائیلائسس ہوا کرتے۔ یہ بارہ سال پہلے کا واقع ہے۔

میں لیکسن گروپ میں بطور نیٹورک انجینیئر (کور نیٹورک آپریشنز) نوکری کرتا تھا۔ بچپن سے ہی میری اور اس کی قربت تھی۔ اماں پریشان رہا کرتی کہ اس کے ہاتھ میری حیات میں ہی پیلے ہو جائیں تو چین نصیب ہو، اماں نے حالت بیماری میں ہی رشتے دیکھنا شروع کر دیئے۔ ایک دن میں نوکری سے گھر پہنچا تو میری سابقہ بیگم اور اماں دونوں ساتھ ساتھ سنجیدہ بیٹھی تھیں۔

مجھے اماں نے کہا " تو ایسا کر، صبح کی چھٹی لے لے اور لاہور اندرون موچی دروازے اپنی بیگم کے ساتھ چلا جا، ایک شریف سی سید فیملی ہے۔ لڑکا و اس کا گھر وغیرہ دیکھ آ، شاید تجھے اچھا لگ جائے" سادات کا یہ المیہ کہ غیر سادات میں بیٹیاں نہیں بیاہتے چاہے وہ گھر بیٹھے بوڑھی ہو جائیں۔ اس ستم ظریفی کا میں قائل نہیں تھا۔ میں اپنی کچھ روایات سے باغی انسان تھا۔

ان رسم و رواج نے معاشرے کو جہنم بنا ڈالا ہوا ہے۔ بہن کے رشتے بہت آیا کرتے۔ کبھی وہ سید فیملی نہ ہوتی تو اماں انکار کر دیتی کبھی کوئی میرے دل کو نہ بھاتا۔ بہن مجھ سے 2 سال چھوٹی تھی اور والد گزر جانے کے بعد میں ہی اس کا بھائی بھی تھا اور والد بھی۔ اماں کا دل رکھنے کو میں اگلی صبح میں اکیلا چل دیا۔ موچی دروازے کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتا بلآخر ایسے مکان میں داخل ہوا جو انتہائی تنگ تھا۔

اندرون لاہور کا نقشہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ مکان کی حالت بہت خستہ تھی۔ یہ شاید دو مرلے کا چار منزلہ مکان تھا۔ ایسے جیسے کوئی ٹاور ہو، پہلی نظر میں گھر میں داخل ہوتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ یہاں اپنی بہن کہاں بھیجنی ہے۔ ریجکٹ گھر میں صرف اماں تھیں۔ اماں بہت نفیس خاتون معلوم ہوئیں۔ انہوں نے خود ہی چائے کا انتظام کیا۔ ان کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا، جس کو دیکھنے میں یہاں پہنچا تھا۔

اب چونکہ میں دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ یہاں رشتہ کرنا ممکن نہیں اس لئے میں چپ چاپ بیٹھا تھا۔ مجھے یوں خاموش دیکھ کر وہ بولیں" بیٹا، سلمان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ وہ میری عین جوانی میں گزر چکے ہیں۔ ان کے بعد میری ایک ہی اولاد تھی، جس کے واسطے میں جیتی رہی۔ میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں سوائے اپنے بیٹے کے مکان کی حالت تو آپ نے دیکھ ہی لی ہے۔

جو ہے یہی ہے۔ سلمان انگلش لٹریچر میں ایم فل ہے اور اب پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ دی سٹی سکول کی ایک برانچ کا وائس پرنسپل ہے۔ گزارا اچھا ہو جاتا ہے" یہ کہہ کر وہ چپ ہوئیں۔ میں نے سلسلہ کلام آگے بڑھانے کو پوچھا " اچھا تو سکول کتنی دور ہے اور کیسے آتے جاتے ہیں؟ جواب آیا " اس کے پاس ابھی بائیک نہیں ہے۔ اسے چلانی نہیں آتی۔ لوکل ٹرانسپورٹ سے آتا جاتا ہے۔ کچھ پیدل چلتا ہے"۔

یہ سن کر میں چپ ہو گیا۔ میری بہن ڈبل ماسٹرز تھی۔ ایم بی اے فنانس کے ساتھ ایم اے اکنامکس کر چکی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کو کیا جواب دوں اور یہاں سے اٹھوں۔ اتنے میں سلمان صاحب گھر آ گئے یہ دبلا پتلا سا گورا چٹا نوجوان تھا۔ لگتا تھا جیسے کشمیری ہو، گفتگو میں انتہائی مہذب لگا، اس سے کچھ علیک سلیک کر کے اور ادھر ادھر کی عام گفتگو کر کے مجھے احساس ہوا کہ بندہ تو شریف اور سلجھا ہوا ہے۔

بلاخر میں بنا کچھ کہے اٹھ بیٹھا۔ چلنے لگا تو اماں بولیں" یہ مقدر کی بات ہوتی ہے، جہاں نصیب ہو وہاں رشتے طے ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ نے کوئی فیصلہ کیا تو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ سلمان جہیز وغیرہ کے سخت خلاف ہے یہ ایک پائی کسی سے نہیں لے گا۔ اور یہ بات حتمی ہے۔ اسے اس بات پر غصہ آ جاتا ہے، باقی میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ جہاں ہم دو ماں بیٹا کھانا کھاتے ہیں وہیں جو بھی آئی اس کو کوئی کسر نہیں آنے دیں گے چاہے خود بھوکے سوئیں۔

گھر سے نکل کر سیالکوٹ اپنے گھر پہنچا میں نے داخل ہو کر بہن کو اپنے کمرے میں بلایا۔ اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ سن کر چپ رہی، ظاہر ہے اس کی چپ اس لئے تھی کہ شاید اس کا دل گھر کا نقشہ سن کر نہیں مان رہا تھا۔ میں نے اسے چپ دیکھا تو اسے کہا " دیکھو، کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اس لئے ہی تو بتا رہا ہوں کہ سب پہلوں سے غور کر کے فیصلہ لو۔

میں نے جتنا جج کیا ہے میرے مطابق وہ لڑکا اگر آج struggling پریڈ میں ہے تو ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ مجھے شریف اور محنتی لگا ہے۔ اگر مجھے ذرا سا بھی کوئی شبہ ہوتا تو تم کو بتائے بنا انکار کر دیتا۔ وہ اٹھ کر چلی گئی، اگلی شام اس نے مجھے کہا " جیسے تم کو ٹھیک لگے، شادی ہو گئی۔ دو بچے ہوئے، سلمان نے پی ایچ ڈی مکمل کی اور کینیڈا کی امیگریشن لے لی۔

چھ سال قبل وہ وہاں شفٹ ہو گئے۔ اب وہ یونیورسٹی آف مسی ساگا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔ اس کی جاب کینیڈا کی highly paid جاب ہے۔ ساری فیملی کینیڈا کی شہریت لے چکی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے سدا ایک سا نہیں رہتا۔ میرا اس کا تعلق بھائیوں سے بھی زیادہ یوں ہے کہ نہ اس کا بھائی تھا کوئی اور نہ میرا، شادی کے بعد اس کی والدہ بھی گزر گئیں اور میری بھی۔

چھ سال بعد گذشتہ سال بہن اپنے دو بچوں کے ساتھ فروری میں پاکستان آئی۔ بچے قدرے بڑے ہو چکے ہیں۔ اس کی بیٹی باتونی اور کیوٹ سی ہے۔ بیٹا کم گو ہے۔ بچے اب مکمل انگریزی لب و لہجہ اختیار کر چکے ہیں۔ بولتے ہوئے سنو تو لگتا ہے کہ کوئی پیدائشی گورے ہیں۔ رات 2 بجے اسے اسلام آباد ائیرپورٹ سے لیا۔ برسوں بعد ملے تھے تو کافی باتیں کرنے کو تھیں۔

واپسی کے سفر میں دھند بھی تھی۔ گاڑی کی رفتار کم تھی۔ حد نگاہ تقریبا 0 تھی۔ میں نے اس کی انگریز کاکی کو چھیڑنے کو کہا " اک بار مجھے ایسی ہی ڈراونی رات میں چڑیل نظر آئی تھی۔ وہ سن کر انگریزی میں کہنے لگی کہ ماموں پلیز نو۔ مجھے نہیں سننا ایسا واقعہ، اس کی ماں بھی اسے چھیڑنے کو میری ہاں میں ہاں ملاتی رہی، سارا رستہ وہ چڑیل کے قصے سے ڈرتی آئی۔ ہم دونوں اس کے ڈرنے سے لطف اندوز ہونے لگے۔

گھر پہنچے تو اگلی شام کو اس نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا، انٹرنیٹ کے ذریعہ کینیڈا میں اپنی کلاس اٹینڈ کی۔ اس کی گوری ٹیچر نے پوچھا " تہنیت، بتاؤ تم کو اپنا ہوم لینڈ پاکستان کیسا لگا؟ وہ اسے فر فر انگریزی میں بتا رہی تھی ٹیچر پاکستان میں دہشتگردی ہوتی ہے، میرے ماموں بھی دہشت گرد ہیں اور میری ماما بھی پاکستان پہنچتے ہی دہشت گرد بن گئی ہیں۔ وہ دونوں ساری رات مجھے چڑیل کی کہانی سنا کر ڈراتے رہے۔ there is no peace teacher۔ Terror is in the air"

پہلے پہل تو ٹیچر کے چہرے کی ہوائیاں اڑیں، وہ انتہائی سنجیدگی سے اوہ، ہممم کرتی رہی، پھر جب ٹیچر کو ساری بات سمجھ آئی گوری قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔ کلاس ختم ہوئی تو میں نے کاکی کو کہا "یہ دہشت گرد ماموں اگر نہ ہوتے تو تمہارا دنیا میں ظہور بھی نہ ہوا ہوتا" اس کی ماں نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی "تھینک یو"۔

Check Also

Shirini Khori Aur Khuda Fehmi

By Mojahid Mirza