Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Bashaoor Insan

Bashaoor Insan

باشعور انسان

اگر آپ کسی کو مغرب کی نماز چار رکعت پڑھتے دیکھیں تو آپ کیا سوچیں گے؟ یہی ناں کہ یہ شخص یا تو جانتا نہیں یا دماغی توازن درست نہیں۔ آپ اس کو اگر بتلانا چاہیں کہ بھائی مغرب کی نماز تین رکعت ہوتی ہے اور آگے سے وہ آپ کو کہہ دے کہ بھائی پھر کیا ہوا؟ چار رکعت ہی تو پڑھتا ہوں کم تو نہیں پڑھتا ناں۔ ایک رکعت زیادہ ثواب ہی ہو گا ناں۔ تب آپ یقیناً یہ رائے قائم کر لیں گے کہ اس کا دماغی توازن بگڑ چکا ہے۔

اگر آپ کسی شخص کو دیکھیں کہ وہ وضو کرتے پانچ چھ بار چہرے اور کہنیوں کو دھو رہا ہے تو آپ سوچیں گے کہ اس کو وضو کے فرائض شاید بھول گئے ہیں۔ اگر آپ اس کو باور کروانا چاہیں کہ بھائی چہرے اور کہنیوں کو تین بار دھونا ہوتا ہے، زیادہ دھونے سے وضو باطل ہو جاتا ہے اور اگلا آپ کو کہہ دے کہ بھائی کیا ہو گیا؟ طہارت ہی تو فرما رہا ہوں، جتنی بھی کر لو ثواب ہی ہو گا ناں۔

کیا خیال ہے، آپ اس کا جواب پا کر کیا سوچیں گے؟ اسی طرح کوئی شخص اپنے مال کا صرف ایک فیصد نکال کر کہے کہ آنے والے دنوں میں اخراجات زیادہ ہوں گے، لہذا یہ مال کا ایک فیصد ہی زکوۃ نکال رہا ہوں تو آپ اسے ضرور بتائیں گے کہ استاد، زکوۃ کی ایک معین شرح ہے، اس سے کم کیسے زکوۃ نکال رہے ہو۔ جہاد ہو، نماز ہو، زکوۃ ہو ہر رُکن پر دین نے واضح احکام دئیے ہیں۔

مغرب کی نماز چار رکعت اور فجر کی تین رکعت پڑھنا حرام ہے۔ الٹا گناہ ہے۔ شریعت نام ہی پابندی کا ہوتا ہے کہ جتنا کہہ دیا، بس اتنا ہی کرنا ہے، اپنی پسند سے اس میں رد و بدل ممکن ہی نہیں۔ بجائے ثواب کے گناہ کماتا ہے انسان ہے۔ اسی طرح حج ایک رکن ہے اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ صرف و صرف اس کی استطاعت رکھنے والے پر فرض ہے۔ غریب یا جو استطاعت نہیں رکھتا، اس پر فرض ہی نہیں۔

دین نے سب سے پہلے اپنے اہل و عیال کی بابت سخت تاکید فرمائی ہے۔ اس کے بعد ہمسایوں کی بابت سخت تاکید فرمائی ہے۔ جتنے عبادات کے رکن ہیں، ان کی حدود و قیود بھی معین کی ہیں۔ ان کے بجا لانے کا وقت بھی معین کیا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ربیع الاول میں رمضان کے روزے کی نیت سے روزہ رکھ لوں، فجر کو ظہر کے وقت فرض کی نیت سے پڑھ لوں، جہاد پر خود ہی نکل کھڑا ہوں۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا معاشرہ جو بظاہر بہت اسلامی ہے اور غیرت کے نام پر ابل ابل پڑتا ہے، اس معاشرے میں دین کو آخر کتنے لوگ سمجھتے ہیں؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دین کو مکمل طور پر کتنے لوگ سمجھتے ہیں، مگر کم از کم دین کے بنیادی اصول یا دین کی روح کو تو ہر کلمہ گو کو سمجھنا چاہئیے کہ نہیں؟ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی کہ ایک شخص بیوی بچوں کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر خود پیدل حج کو نکل گیا ہے۔

اس خبر کے نیچے آپ دیکھ لیں ہزاروں کمنٹس ہیں۔ جن میں ماشااللہ، جزاک اللہ، اللہ ہمت دے، اللہ قبول کرے وغیرہ وغیرہ لکھا مل جائے گا۔ اور تو اور اس شخص کے متعلق اپڈیٹ بھی دی جا رہی ہیں کہ آج فلاں شہر پہنچ گیا تو دو دن تک فلاں شہر پہنچ جائے گا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کونسا حج؟ کیسا حج؟ بال بچے چھوڑ کر کدھر نکل پڑے؟ ان کی ذمہ داری تم پر دین نے فرض کی ہے وہ اللہ کے آسرے کیوں چھوڑ دئیے؟

حج تم پر فرض ہی نہیں تو یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ یہ کونسا دین ہے، جس کا پرچار کرنے نکلے ہو؟ ٹھیک ہے، نیت بہت خالص ہے، عشق سچا ہے، جذبہ ایمانی انتہائی اونچے درجے کا ہے، مگر کس کے لئے؟ جس کا دین ہے، اس کا تو یہ حکم ہی نہیں۔ جس اللہ کے واسطے ایمان ہے، وہ تو یہ چاہتا ہی نہیں پھر بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص دین کے نام پر یہ سب کرے تو۔

اس کی دماغی حالت چیک کر لیں اور اگر لگے کہ یہ دماغی طور پر ٹھیک ہے تو پھر اس کی حوصلہ شکنی کریں کہ یہ تم کیا کرنے لگے ہو اور اس سے دین کا کونسا مثبت پیغام جائے گا؟ ہاں، کسی کے پاس وسائل ہیں، اس کا حج فرض ہے۔ وہ پھر چاہے اپنے اہل و عیال کے حقوق پورے کرتے ہوئے اپنی من مرضی سے پیدل نکل جائے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ پیدل حج کرنے سے اس کو دلی سکون ملے گا یا زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔

تو پھر جو اس کی مرضی اس میں کسی قسم کا روک ٹوک یا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ وہ پھر فرد و اللہ کا معاملہ ہے۔ مگر یوں نکلنا جیسے وہ پیدل نکلا ہے، فرد و اللہ کا معاملہ نہیں دین کا معاملہ بن جاتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟ کیا کوئی سکالر، کوئی مفتی (اصل مفتی) کوئی باشعور انسان جو دین کی اساس کو سمجھ سکتا ہو وہ اس امر کی حمایت کرتا ہے؟

Check Also

Dr Noman Niaz Aur Dr Zafar Altaf

By Rauf Klasra