Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Bachpan

Bachpan

بچپن

در و دیوار سے انسان کا رشتہ ایسا گنجلک رشتہ ہے کہ سمجھ نہیں آتی اینٹیں اور گاڑا یادوں سے جڑتا ہے یا وہاں بسنے والے لوگوں سے وابستہ یادوں کی وجہ سے در و دیوار اپنے طرف کھینچتے ہیں۔ جس مکان میں ہوش سنبھالی وہ سیالکوٹ شہر کی آبادی سے دور ایک کچا پکا گھر تھا۔ چھوٹی دیواروں کے حاشیے کے اندر بڑا سا کچا صحن، صحن کے بائیں طرف سے چھت کو جاتی پکی سیڑھیاں۔

صحن کے سامنے دو پکے کمرے اور کمروں کے آگے چھوٹا سا پکا برآمدہ جو کچے صحن سے منسلک تھا۔ چھت کو جاتی سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ، باروچی خانے کے بالکل مخالف ایک واش روم، دونوں کمرے پورے گھر کی چوڑائی جتنے بڑے اور درمیان سے آدھے آدھے بٹے ہوئے تھے۔ اندر سے دونوں کے درمیان ایک دروازہ تھا۔ جو کھُلا ہی رہتا، جس سے دونوں کمرے اندر سے آپس میں منسلک تھے۔

مگر باہر سے دونوں کے الگ الگ لکڑی کے دروازے تھے۔ کچے صحن میں دو چارپائیاں پڑی رہتیں، جو گرمیوں کی دھوپ میں پکے برآمدے میں شفٹ ہو جاتیں اور سردیوں میں پھر کچے صحن میں لگ جاتیں۔ گھر کے باہر کا مرکزی دروازہ کھولتے ہی بائیں ہاتھ مٹی کا تندور ہوتا۔ تندور کے آگے گھر کی دیوار کے ساتھ نیم کا درمیانے سائز کا درخت لگا ہوتا تھا۔

دن بھر اس کچے صحن میں اکیلا ٹینس کھیلتا۔ سامنے کے گھر میں تین بہن بھائی میرے ہم عمر رہتے تھے۔ دو بہنیں اور ایک بھائی۔ اکثر وہ بھی کھیلنے آ جاتے تو چاروں مل کر برف پانی سے لے کر ریڈی گو تک ہر کھیل اسی آنگن میں کھیلتے۔ پکے برآمدے میں پانی کا کچا گھڑا پڑا رہتا وہیں سے پانی پیتے پھر کھیلنے لگ جاتے۔ رات کو میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک کمرے میں سوتا اور دوسرے میں والد صاحب کتابیں پڑھتے رہتے۔

گلی کچی تھی، اس گلی میں دونوں طرف نالیاں تھیں اور بیچ میں جگہ جگہ بنٹے کھیلنے کے لئے کھدیاں کھودی ہوئیں تھیں۔ میرا بچپن کا وہ دوست کہیں لاپتہ ہو گیا، معلوم نہیں اغوا ہوا یا کیا بنا، لیکن اس کا کبھی پتہ نہیں چل سکا۔ اس کی دو بہنیں اور ماں باپ روتے ہی رہے۔ اس کے ایک سال بعد وہ مکان والد صاحب نے چھوڑ دیا اور شہر کے مرکز میں مکان لے لیا، محلے میں بے رونقی ہو گئی تھی یا دل میں، پتہ نہیں۔

لیکن میرا بھی پھر وہاں رہنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ پچیس سال قبل وہ مکان جب چھوڑا تب اتنی ہوش تو نہیں تھی، چودہ سال کا لڑکا تھا، لیکن کئی عرصے سے اس مکان سے منسلک یادیں بہت ستاتی رہی ہیں۔ میں کبھی مڑ کے واپس نہیں گیا۔ ایک دن مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی میں اسے دیکھنے نکل پڑا۔ لاہور سے سیالکوٹ پہنچا۔ وہاں پہنچا ہوں تو گھر بالکل بدل چکا ہے۔

لیکن بنیادی خد و خال ویسے ہی ہیں، کچا صحن اب پکا ہو گیا ہے، بالائی منزل پر بھی کمرے تعمیر ہو چکے ہیں، نیم کا درخت نہیں رہا نہ تندور رہا، دیواریں بھی اونچی ہو چکی ہیں۔ مکان کے مرکزی دروازے پر قفل پڑا تھا۔ وہاں فی الحال کوئی نہیں رہ رہا۔ ہمسائے سے پوچھ کر اور اس کو وجہ بتا کر اندر داخل ہوا، صحن میں پہنچتے ہی آنکھ بھر آئی۔ ویرانی سی ویرانی تھی۔

میری ماں بتاتی تھی کہ بچپن میں مجھے سوکھے کی بیماری تھی۔ جسم تیلا سا تھا۔ پھر ایک حکیم کے علاج سے بیماری رفع ہوئی۔ بھلا ماں کو یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ شاید اسی سوکھے کا اثر ہے کہ آج تلک میری آرزو و دوستی کا کنواں خشک ہے۔ ماں بتاتی تھی کہ بچپن میں مجھے ہنسی بھی بہت آتی تھی۔ ہنستا تو میں آج بھی ہوں۔ لیکن یہ شاید ہنسی نہیں ہے میرے احساس کی بھٹکتی ہوئی آتما ہے۔

یہ ہنسی انشاء کی کھوکھلی ہنسی ہے ملتی ہے۔ پیوند کی طرح چمکتی ہوئی روشنی، روشنی میں نظر آتے ہوئے بُجھے بُجھے چہرے، چہروں پہ لکھی ہوئی داستانیں، داستانوں میں چھُپا ہوا ماضی، ماضی میں چھُپا ہوا میرا بچپن، جگنوؤں کا تعاقب کرتا بچپن، تتلیوں کو پکڑتا ہوا بچپن، پیڑ کی شاخ سے جھُولتا ہوا بچپن، کھلونے کی دکان کو تکتا ہوا بچپن، باپ کی گود میں ہنستا ہوا بچپن۔

ماں کی آغوش میں مسکراتا ہوا بچپن، مسجد میں سپارے رٹتا ہوا بچپن، دُھول مٹی سے کھیلتا ہوا بچپن، غلیل سے نشانے لگاتا ہوا بچپن، پتنگ کی ڈور سے اُلجھا ہوا بچپن، نیند میں چونکتا ہوا بچپن، خدا جانے کس بھُول بھُلیا میں کھو کر رہ گیا ہے۔ شہر کی بھیڑ بھار سے دور چناب کے کنارے گھروندے بنانے کے دن کہاں کھو گئے۔ چناب بھی وہیں موجود ہے، ریت بھی موجود ہے مگر میرے ہاتھ جو ریت سے محل تعمیر کر پاتے تھے وہ شل کیوں ہو گئے۔

کیا پستی کو بلندی اپنے پاس نہیں بیٹھنے دیتی، کیا امیری بچپن کی غربت کا ذائقہ نہیں پہچانتی، کیا آسودہ حالی بچپن کو قتل کر دیتی ہے۔ مئی جون کی تیز دھوپ میں ماں چیختی رہتی تھی اور بچپن پیڑ کی شاخ سے جھُولا کرتا تھا۔ کیا دھوپ چاندنی سے زیادہ حسین ہوتی ہے۔ ماچس کی تیلیوں سے بنی ہوئی ریل گاڑی کی پٹریاں کون چُرا کر لے گیا۔ کاش مجھ سے کوئی میری کار لے لے اور میری وہی چھک چھک کرتی ہوئی ریل گاڑی لا دے۔

کیونکہ لوہے اور اسٹیل کی بنی ہوئی گاڑیاں وہاں نہیں رک سکتیں، جہاں معصوم خواہشیں مسافروں کی طرح انتظار کرتی رہی ہیں۔ جہاں چھوٹی چھوٹی تمنائیں ننھے ننھے ہونٹوں سے بجنے والی سیٹیوں پر کان لگائے رہتیں تھیں۔ کوئی میرے گھر کے سامنے والے گھر میں وہ کنواں واپس لا دے جو میری ماں کی طرح ہی خاموش تھا۔ جب خالہ مجھے اپنے گھر لے جاتی تو ماں ڈرتی کہ میں کہیں کھیلتے ہوئے اس کنوئیں میں نہ گر پڑوں۔

گرمیوں کی دھوپ میں جب ماں مجھے کمرے میں رہنے کی تلقین کرتی تو گھر کے کچے آنگن میں دانہ چگتے ہوئے وہ چوزے بہت اچھے لگتے تھے، جنہیں ان کی ماں ہر خطرے سے بچانے کو اپنے نازک پروں میں چھُپا لیتی تھی۔ اور پھر جیسے ہی ماچس کی تیلیوں سے بنی ریل گاڑی کی سیٹی نے سسکیاں لیں کارواں ایک انجان منزل کی جانب رواں ہو گیا۔ پلیٹ فارم پر کھڑے والد لڑکھڑائے، میں نے لپک کر سہارا دینا چاہا۔

انہوں نے اپنا بوجھل جسم میرے حوالے کر دیا اور میں اسی دن جوان ہو گیا۔ ریل گاڑی میں والدہ بھی کوچ کر گئی۔ ضرورت کی ریل گاڑی مجھے بھی بچپن سے یکدم جوانی کے شہر میں لے آئی۔ کوئلے سے دیوار پر نام لکھنے کا موسم چلا گیا اور پیڑ کی شاخ پر کوئی دلربا نام للھنے کی رُت آ ہی نہ سکی۔ تختی پر سبق لکھنے کے دن چلے گئے۔ روٹی کے ٹکروں کے سہارے چڑیا پکڑنے کا کھیل ختم ہو گیا۔

سامنے والا گھر بالکل بدل چکا ہے۔ اب پہچانا نہیں جاتا، پہلے سوچا کہ پوچھوں کہ وہی لوگ اب بھی رہ رہے ہیں یا وہ بھی جا چکے لیکن ہمت نہیں پڑی کہ اگر وہی ہوئے تو میری وجہ سے ان کو اپنا بیٹا نہ یاد آ جائے۔ میری پشت پر اس مکان کا ہمسایا کھڑا تھا۔ جس نے چابی سے قفل کھول کر مجھے اندر جانے دیا تھا۔ میرا دل چاہنے لگا کہ یہ یہاں سے چلا جائے تو ایک بار میں کھل کے دل ہلکا کر لوں لیکن اسے بھی جانے کا نہیں کہہ سکا۔

یہ تلاش و جستجو کا لامتناہی سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ کبھی کوکھ اولاد کو تلاش کرتی ہے، کبھی اولاد ماں باپ کی آغوش کو۔

مرا بچپن تھا مرا گھر تھا کھلونے تھے مرے

سر پہ ماں باپ کا سایہ بھی غزل جیسا تھا

Check Also

Barkat Kisay Kehte Hain?

By Qamar Naqeeb Khan