Bachpan Ka Muharram Aur Talib Johri
بچپن کا محرم اور طالب جوہری

ان ایّام محرم میں مجھے گئے لوگ یاد آنے لگتے ہیں۔ کیا روادری تھی، کیا برداشت تھی، کیسی ملنساری تھی، کیسے پیارے لوگ تھے۔ کیا خوبصورت دور تھا۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو اپنا بچپن سہانا لگتا ہے چاہے دور کیسا بھی بیتا ہو، غربت ہو یا امارت، جمہوریت ہو یا مارشل لاء، کمیوننزم چھایا ہو یا کیپٹل ازم۔ بچپن میں یہی تو خاص ادا ہوتی ہے جیسا بھی گزرا اچھا لگتا ہے۔ ٹی وی خال خال گھروں میں پایا جاتا تھا۔ پی ٹی وی واحد چینل تھا۔ سنہ نوے کی دہائی میں میں بچپن اور لڑکپن کے درمیاں انگڑائیاں لے رہا تھا۔ پی ٹی وی کے سوا سرحدی شہروں سیالکوٹ، نارووال وغیرہ میں بھارتی چینل دوردرشن بھی انٹینا پکڑ لیتا تھا۔
ان ایّامِ محرم کو یاد کروں تو عہدِ بچپن کی جو تصویر میرے پردۂ ذہن پر اُترتی ہے وہ ہے علامہ طالب جوہری کی مجلسِ شامِ غریباں اور پی ٹی وی پر اسے سننے کے واسطے انٹینے گھمانے کا مشقتی عمل۔ نیشنل کمپنی کا ایک اٹھارہ انچ کا ٹی وی ہمارے گھر تھا اور ایک ابا کے دوست محلے دار شیخ رحمٰن صاحب کے گھر۔ اسی کی دہائی میں شیخ رحمٰن صاحب کویت گئے تھے اور وہاں سے ان کے حالات بدلنے لگے۔ واپس آ کر انہوں نے کفتان زیبِ تن کرنا شروع کر دیا۔ جمعہ کے جمعہ وہ جامع مسجد میں کفتان پہن کر نماز ادا کرنے ضرور جاتے۔ مذہبی مزاج کے حوالے سے سخت ہو چلے تھے، مسجد میں جاتے تو لوگوں سمیت امام صاحب کو بھی بدعت وغیرہ پر لیکچر دینے لگتے، البتہ ابا سے دوستی کا تعلق قائم رہا۔ یہ طالب جوہری کے بیان کی تاثیر تھی کہ شیخ صاحب اپنی بیٹھک میں ٹی وی لگا دیتے اور اہلِ محلہ یعنی اپنے ہم عمر دوستوں کے لیے مجلسِ شام غریباں سننے کا اہتمام کرتے۔
ایک بار یوں ہوا کہ ہمارے انٹینا کی تار عین وقت پر جانے کس سبب ٹوٹ گئی یا کچھ ہوا جو مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں۔ یہ یاد ہے کہ خرابی کے سبب ٹی وی پر دانے دار شوریدہ سکرین آتی رہی۔ ابا مجھے شیخ صاحب کی بیٹھک میں لے گئے۔ وہاں بڑے صوفے لگے ہوتے تھے جن پر اہل محلہ بزرگ و درمیانی عمر کے لوگوں سے لے کر ننھے بچوں تک موجود تھے البتہ اس فرق کے ساتھ کہ صوفے بڑوں کے واسطے اور بچے فرش پر بیٹھتے تھے۔ طالب جوہری کی مجلس کا آغاز ہوا۔ بچوں سمیت مجھ کو تب کیا خاک سمجھ آنا ہوتی سو ہم تو بس محفل میں اک دوجے کی شکلیں دیکھا کرتے اور آپس میں چوں چاں لگا لیتے اور پھر کسی بڑے کا دبکا لگتا تو خاموشی چھا جاتی۔ مجھے یاد ہے طالب جوہری کا بیان آخری مراحل پر پہنچتا تو محلے داروں کے داد دیتے، لطف اُٹھاتے چہروں پر افسردگی چھا جاتی۔ میں نے شیخ صاحب کی آنکھوں میں نمی دیکھی اور پھر انہوں نے آنسو بہنے سے روکنے کے واسطے چہرے پر رومال رکھ لیا۔ لگ بھگ یہی حال باقی سب کا بھی ہوتا صرف ابا ایسے تھے جو کھُل کے رو لیتے تھے۔
طالب جوہری کو سنتے بڑے ہوئے تو ایک بار سنہ 2001 میں جب میری عمر انیس سال تھی ایک بار طالب جوہری صاحب ہمارے شہر سیالکوٹ میں ایک روز کے لیے تشریف لائے۔ ابا مجھے ساتھ لیے سیالکوٹ کینٹ میں واقع ایک بنگلے پر لے گئے جہاں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوئے تو علامہ کھانا کھا رہے تھے۔ ان کے سوا کمرے میں دو تین لوگ اور موجود تھے۔ ابا سے سلام دعا ہوئی۔ میں نے بھی سلام کے ساتھ مصافحہ لیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ زندگی میں پہلی بار ان کی گفتگو سامنے سنی۔ وہی لہجہ، وہی انداز جو منبر پر نظر آتا۔ بات کرتے مسکراتے تو دونوں ہاتھوں سے اپنے بال سنوارتے، عینک درست کرتے اور پھر سوال کے جواب میں مسکرا کے بیان شروع کر دیتے۔
علامہ طالب جوہری کی پہچان سنہ اسی کی دہائی میں پی ٹی وی سے نشر ہونے والی سیریز "فہم القرآن" بنی جس میں علامہ قرآن کا پیغام یا تفسیر سمجھاتے۔ اندازِ بیاں ایسا دلنشیں کہ انہوں نے پاکستان کی سُنی شعیہ عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اپنے ابتدائی دس سال انہوں نے نجف میں قاسم الخوئی صاحب اور باقر الصدر صاحب کی محفل میں بطور طالب علم صرف کیے تھے۔ یادداشت غیر معمولی تھی۔ قرآن یوں یاد تھا گویا بچپن میں سنی نظمیں ہوں۔ مجالس میں قرآن کی آیات جھوم جھوم کر پڑھتے جاتے اور گفتگو قرآن سے شروع کرکے قرآن پر ختم کر دیتے۔ اسی ایک ملاقات میں کسی کے ذکر کرنے پر بولے تھے "بیٹا قرآن سب کا مشترکہ ہے حدیث کے بیان میں اس کے ضعف ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ قرآن خدا کا کلام ہے۔ اس واسطے پیغام بھی آفاقی ہے اور میں اسی سے گفتگو کرنا اپنا مشن سمجھتا ہوں۔ "
جب تلک طالب جوہری دس محرم کی رات پی ٹی وی پر آتے رہے میں ان کو بصدِ شوق سنتا رہا۔ آپ طالب جوہری کو سنیں اور گفتگو کے اختتام ہوتے آپ کی آنکھ نہ بھیگے یہ نہیں ہو سکتا۔ "تم نے گریہ کیا۔ مجلس تمام ہوئی۔ " یہ جملہ کہنے والی آواز سنہ 2020 میں خالق حقیقی سے جا ملی۔ لوگ کہتے ہیں ان کے جانے سے خلا پیدا ہوا ہے جو طویل عرصے تک پُر نہیں ہو سکے گا۔ مجھے تو لگتا ہے وہ خلا بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
حسینیت آفاقی پیغام ہے آفاقی نظریہ ہے میں اسے مذہب تک محدود نہیں سمجھتا۔ حسینیت بنیادی طور پر لیفٹ کی تحریک ہے۔ یعنی طاغوت کے مقابل قیام۔ جبر کے مقابل کلمئہ حق بلند کرنا اور یہ بات آفاقی ہے۔ چرچ کے مقابل گلیلیو کی حمایت کی جائے گی۔ سقراط کو زہر کا پیالہ دینے والوں کی طرفداری ممکن نہیں ہو سکتی۔ نمرود، شداد، فرعون اور یزید جیسی بد آتماؤں کی دستاربندی نہیں ہو سکتی۔ اسٹیبلشمنٹ خواہ مذہبی ہو یا عسکری اس کے گن نہیں گائے جا سکتے۔ ہٹلر کے مقابل جرمن شاعر ہینرک ہانئیے کو سراہا جائے گا جس نے کہا تھا " جو آج کتابیں جلا رہے ہیں یہ کل انسانوں کو بھی جلائیں گے۔ "۔ حسینیت کو طبقات میں تقسیم نہ کریں یہ شیعہ سنی سے بہت بالا کی تحریک ہے۔ یہ محرم کے دس دنوں کا پیغام نہیں یہ انسان کے واسطے بنیادی الہیٰ پیغام ہے۔ یہ ماتم، گریہ، سوز و سلام، جلوس، قُل شریف، ختم قرآن کی محفلوں، محفل مسالمہ، امام حسین کانفرنسوں، قبرستان کے دوروں، دس محرم کے فاقے یا روزے سے بالا ہے۔
اور یزید کسی ایک ہی فرد کا ہی نام نہیں یہ تو ایک کیفیت ہے۔ یوں سمجھیں جیسے ہوا ہے، پانی ہے، آگ ہے ویسے ہی یزیدیت اور حسینیت بھی ہم سب کی زندگیوں میں سائے کی طرح ایک دوسرے کے تعاقب میں آزو بازو، اوپر تلے، اندر باہر چل رہی ہے۔ دونوں کیفیات مسلمانوں کے ہر چھوٹے بڑے فرقے سمیت دنیا کے ہر مذہب و لا مذہب میں نہ صرف موجود بلکہ مسلسل رواں ہیں۔ مگر ہمیں یوں دکھائی نہیں دیتیں کہ مقابل پر سے نگاہ ہٹے تو خود پے نگاہ پڑے۔ میرے اندر پوشیدہ حسینیت کی رمق اور یزیدیت کی لہر میں سے کس وقت کیا باہر آ جائے یا کب دونوں کیفیات اندر ہی اندر خلط ملط ہو کر پھر الگ الگ ہو جائیں یہ میں نہیں جانتا۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اندر کے یزید کو حسین پر غالب نہیں ہونے دینا۔ ہر انسان اپنی ذات میں ہی معرکہ خیر و شر کے محاذ پر ہر دم کھڑا ہے۔ اس معرکے سے سرخرو ہو لیجئیے تو پھرسمجھئیے کہ آپ خدا کی نظر میں بھی حسینی ہیں۔ باقی سب تو چلتا ہی رہے گا۔