Najaiz Masajid Ka Mamla Aur Hamari Zimmedari
ناجائز مساجد کا معاملہ اور ہماری ذمہ داری

مسجد اللہ کا گھر ہے، عبادت اور پاکیزگی کی علامت۔ اس کا تقدس ہم سب پر واجب ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں بعض جگہوں پر ناجائز زمینوں پر مساجد تعمیر کر دی جاتی ہیں۔ کبھی یہ فٹ پاتھ پر ہوتی ہیں، کبھی گرین بیلٹ یا سرکاری زمین پر اور بعض اوقات فلائی اوور کے نیچے بھی ایسی تعمیرات نظر آتی ہیں۔
اکثر طریقہ ایک جیسا ہوتا ہے: پہلے چند صفیں بچھا کر نماز کا آغاز کیا جاتا ہے، پھر عارضی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ مستقل مسجد اور ساتھ ساتھ مدرسہ یا حجرہ بھی بنا دیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ سب نیک کام لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ناجائز طریقہ ہے جو نہ شریعت کے مطابق ہے اور نہ قانون کے۔
فقہ جعفریہ میں یہ اصول بالکل واضح ہے کہ نماز غصبی جگہ پر درست نہیں ہوتی۔ یعنی اگر زمین مالک کی اجازت کے بغیر ہو یا قبضے میں لی گئی ہو تو وہاں کی نماز باطل ہے۔ اسی لئے شیعہ مساجد میں آپ کو قبضہ شدہ جگہ پر تعمیر کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ملیں گی۔
قرآنِ مجید بھی اس مسئلے پر رہنمائی دیتا ہے۔ سورہ توبہ میں"مسجد ضرار" کا ذکر ملتا ہے، جو غلط بنیاد پر بنائی گئی تھی اور رسول اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ اسے منہدم کر دیا جائے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد اگر غلط طریقے پر بنی ہو تو اس کا وجود باقی رکھنا شریعت کے مطابق نہیں ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں کچھ ناجائز مساجد کو مسمار کیا گیا تو بعض حلقوں نے اس پر سخت ردِعمل دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قبضہ کی جگہ پر مسجد بنانا نہ قانون کے مطابق ہے نہ شریعت کے۔ حکومت اگر ایسی مساجد کو ہٹاتی ہے تو یہ اقدام دینی و قانونی لحاظ سے درست ہے۔
یہ صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس روش کی حوصلہ شکنی کریں۔ اگر واقعی مسجد کی ضرورت ہے تو ہمیں قانون کے مطابق زمین لے کر، اجازت اور منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر کرنی چاہیے تاکہ مسجد ہمیشہ کے لئے قائم رہے اور عبادت گزار سکون سے عبادت کر سکیں۔
یاد رکھیے، مسجد کا تقدس اسی وقت قائم رہتا ہے جب وہ پاکیزہ بنیاد پر بنائی جائے۔ ناجائز جگہ پر تعمیر نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ عبادت کی قبولیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

