Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Kya Imamat Ka Agha Khani Tasawur Mumkin Hai?

Kya Imamat Ka Agha Khani Tasawur Mumkin Hai?

کیا امامت کا آغا خانی تصوّر ممکن ہے؟

کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ امامیہ مکتب (اثنا عشریہ) میں بھی ایک "زندہ امام" کے تصوّر کو پیش کیا جائے اور مثال کے طور پر آغا خانیوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن کا ایک حاضر امام ہوتا ہے اور پوری برادری اس کے فیصلوں کو حتمی حیثیت دیتی ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ یہ تجویز "ولایتِ فقیہ" کے تناظر میں دی گئی ہے یا پھر بالکل ہی ایک نئی طرز کی امامت کا خاکہ پیش کرنے کی کوشش ہے۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ آیا امامیہ مکتب میں آغا خانی طرز کی امامت ممکن ہے؟

انسانی طبیعت ہمیشہ تبدیلی کی خواہاں رہتی ہے۔ دنیاوی عوامل جیسے اقتدار کی کشش، سماجی اختلافات، قومی و لسانی تقسیم اور سیاسی وابستگیاں اس رجحان کو اور بھی پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ اگر آج ہم یہ طے کر لیں کہ دنیا بھر کے شیعہ ایک ہی زندہ امام کو تسلیم کریں، تو کیا ایرانی، عراقی، پاکستانی، ہندی، شامی، لبنانی، بحرینی، سعودی، افریقی اور ترک شیعہ اس پر متفق ہو جائیں گے؟ تاریخی اور عملی طور پر یہ امر نہایت بعید دکھائی دیتا ہے اور اگر بالفرض سب متفق بھی ہو جائیں تو کیا یہ نظام آنے والی نسلوں تک بلا خلل قائم رہ سکے گا؟ اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

البتہ یہ سب اس وقت ممکن ہے جب امام کا تصوّر محض ایک انتخابی یا تنظیمی عہدہ نہ ہو بلکہ الٰہی منصوص ہو، یعنی وہ امام "منصوص من اللہ" سمجھا جائے، جسے براہِ راست اللہ نے مقرر کیا ہو اور جو اپنے فیصلوں میں معصوم ہو، خطا سے پاک ہو۔ یہی تصوّر آغا خانی امامت میں پایا جاتا ہے کہ ان کا امام اللہ کا منتخب، نورِ خدا کا مظہر اور موجودہ زمانے کا علیؑ ہے۔ اس عقیدے کے باعث ان کی جماعت ایک ہی امام کے پرچم تلے متحد رہتی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اثنا عشری شیعہ مکتب میں بارہ آئمہ کے بعد اس قسم کی امامت کا کوئی امکان باقی رہتا ہے؟ امامیہ عقائد کے مطابق، بارہویں امام محمد بن حسن العسکریؑ غیبت میں ہیں اور ان کے بعد کسی نئے معصوم امام کا آنا ممکن نہیں۔ پس عقلی و کلامی دونوں لحاظ سے امامیہ مکتب میں آغا خانی طرز کی امامت کا نفاذ ناممکن ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خود اسماعیلیوں کے اندر آغا خانیوں کا یہ نظریہ متفقہ نہیں۔ بوہری اسماعیلی اس تصوّر سے متفق نہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ آغا خانی جماعت میں بھی بارہا اختلافات اور تقسیمات پیدا ہوئے۔ مثلاً مومن شاہی اور قاسم شاہی کی تقسیم اور پھر بیسویں صدی میں اُس وقت کے امام سے مالیاتی امور پر اختلاف کے باعث ایک بڑی تعداد نے جماعت سے علحدگی اختیار کرکے امام کی امامت کا انکار کر دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حتیٰ کہ منصوص و معصوم مانے جانے والے امام کے ہوتے ہوئے بھی اختلافات اور شقاق کا عمل رک نہیں سکا۔

لہٰذا امامیہ مکتب میں آغا خانی طرز کی امامت نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی اعتبار سے بھی قابلِ قبول نہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ مختلف ممالک اور خطّوں میں قیادت اور عوامی رہنمائی کے لئے ایسے افراد کی تقرّری کا نظام وضع کیا جائے جو علم و عدالت، تدبّر و بصیرت، انتظامی صلاحیت اور مقامی حالات سے گہری آگاہی رکھتے ہوں۔

لیکن جہاں جہاں یہ نظام قائم کیا گیا وہاں بھی اختلافات اور گروہ بندی سے بچا نہ جا سکا۔ پاکستان میں اس کی ایک نمایاں مثال 1980 کی دہائی میں سامنے آئی جب قوم نے مفتی جعفر حسینؒ کی قیادت میں وحدت اختیار کی، لیکن ان کی وفات کے بعد علامہ عارف الحسینیؒ کو اکثریت نے تو مان لیا، مگر ایک گروہ علحدہ ہوگیا۔ پھر علامہ ساجد علی نقوی (حفظہ اللہ) کو سب نے تسلیم کیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اختلافات بڑھتے گئے اور قوم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجہ بھی وہی ہے جس کی نشاندہی ہم اوپر کر چکے ہیں: ایک نئی شخصیت لیڈر بننے کا دعویٰ کرتی ہے اور کچھ لوگ اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ نتیجتاً افتراق و انتشار ناگزیر ہو جاتا ہے۔

پس اس مسئلے کا حقیقی حل یہ نہیں کہ ہم اختلافات کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ انسانی سماج میں ہمیشہ کسی نہ کسی درجے میں موجود رہیں گے۔ اصل حل یہ ہے کہ ان اختلافات کو بڑے قومی و اجتماعی مسائل پر وحدت کے تابع کر دیا جائے، یعنی داخلی تنوع برقرار رہے مگر جب ملت کی اجتماعی بقا اور بڑے مسائل درپیش ہوں تو سب ایک مشترکہ لائحۂ عمل پر متحد ہوں۔ یہی وہ راہِ حل ہے جو افتراق کو خانہ جنگی سے بچا کر تنوع کی شکل دے سکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan