Israel Ki Miscalculation
اسرائیل کی مس کیلکولیشن

ایران کے سلسلے میں نیتن یاہو سے mis-calculation ہوئی ہے۔ اگر میں کچھ دن پہلے بات کرتا تو شاید مجھ پر جانبدار ہونے کا الزام لگتا لیکن اب حالات اِس قدر واضح ہیں کہ یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے۔
پہلی بات یہ کہ نیتن یاہو کو لگا تھا کہ ایران صدّام حسین کی طرح اُس کے حملوں کا جواب نہیں دے گا کیونکہ اس کو ڈرایا دھمکایا گیا ہے، یا پھر اُس کا جواب اُس شدّت کا نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کو بھی شاید یہی بتایا گيا تھا اس لئے ابتدا میں اس نے ان اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور باڈی لینگویج یہ بتا رہی تھی کہ ایران کو تو ہمارا یہ بغل بچہ زیر کر لے گا۔ لیکن ایران نے نہ صرف صیہونی ریاست کو جواب دیا، بلکہ بھرپور جواب دیا۔
دوسرا اُس کو یہ لگ رہا تھا کہ جواب دینے کی صورت میں ایران امریکی مفادات پر حملہ کرنے کی حماقت کر بیٹھے گا۔ یہ بات بعید بھی نہیں تھی کیونکہ ایران عرصے سے اس بات کی دھمکی دے رہا تھا۔ اگر ایران ذرہ برابر بھی امریکی اڈّوں یا اس کے مفادات پر حملہ کرتا تو امریکہ اس جنگ میں کود جاتا۔ لیکن ایران نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس قسم کی کوئی حماقت نہیں کی اور فوکس صرف صیہونی ریاست پر رکھا۔
کُل ملا کر بات یہ ہے کہ نیتن یاہو چاہتا ہے کہ جنگ کا دائرہ پھیلے اور امریکہ اِس میں شامل ہو جائے کیونکہ ایران کے حملے نہایت شدید ہیں، ایک چھوٹا سا ملک اس کے وار سہنے کا زیادہ عرصے متحمّل نہیں۔ لیکن ایران جنگ کا دائرہ پھیلائے بغیر صیہونی ریاست کو طویل اعصابی جنگ میں الجھا کر رکھنا چاہتا ہے۔ بظاہر اُس نے طویل جنگ کی تیّاری کر لی ہے۔ بہت کم میزائل داغ رہا ہے تاکہ اس ذخیرے کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
اس بات کو تقویت ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات سے بھی ملتی ہے۔ صیہونی ریاست لمبے عرصے کے لئے کمزور فلسطین پر چڑھائی کر سکتی ہے لیکن مضبوط میزائیل پروگرام رکھنے والے ایران کے ساتھ طویل جنگ نہیں لڑ سکتی۔ وہاں عوام کے اعصاب اُس طرح مضبوط نہیں جتنے ایران میں ہیں۔ ایک چھوٹے سے ملک میں تھوڑے نقصان کی بھی شدّت کافی ہوتی ہے جو اس وقت واضح نظر آ رہا ہے۔ ٹھیک ہے جانی یا مالی نقصان ایران کا زیادہ ہوگا لیکن مضبوط نظام والے بڑے ملک ایران پر اس کا اثر اس شدت کا نہیں ہوگا۔ ٹرمپ اس بات کو سمجھ رہا ہے اور وہ جنگ میں گُھسنا چاہتا ہے لیکن اس کے راستے میں بڑی رکاوٹ امریکی عوام اور کانگریس ہے جو پھر سے کسی طویل مُدّتی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔
آج شب جو کہ امریکہ میں دن کی شروعات ہے اور کل کا دن بہت اہم ہیں۔ دیکھتے ہیں ٹرمپ جو کہ اس وقت بالکل باؤلا نظر آ رہا ہے، کیا فیصلہ کرتا ہے؟ آیا صیہونی لابی اس پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہتی ہے یا امریکی عوام؟
کل پرسوں تک انشاء اللہ واضح ہو جائے گا۔

