Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Iran Israel Kasheedgi Aik Tajzia

Iran Israel Kasheedgi Aik Tajzia

ایران اسرائیل کشیدکی ایک تجزیہ

اسرائیل نے بہت مکر و فریب کے ساتھ ایران کو ٹریپ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں امریکا اور کچھ مسلم ممالک نے کردار ادا کیا ہے۔ جب تک شام میں بشار الاسد کی حکومت تھی وہاں ایرانی عسکری تنصیبات موجود تھیں، شام کا اپنا دفاعی نظام بھی مضبوط تھا اور اس کی فوج بے پناہ مضبوط سمجھی جاتی تھی۔ یہی شام تھا جس نے 67 اور 73 کی جنگوں میں صیہونی ریاست کو ٹف ٹائم دیا تھا۔

اس وقت ایران کا المیہ یہی ہے کہ اس کی سرحدیں اسرائیل سے نہیں ملتی ہیں۔ برّی جنگ (Ground Battle) میں ایرانیوں کو کوئی ہرا نہیں سکے گا، چاہے ایران میں کوئی اپنی فوج اتار دے یا ایران صیہونی ریاست پر لشکر کشی کرے، یہ بات تو طے ہے کہ ایران کئی سالوں تک جنگ لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ صیہونی ریاست تو حزب اللہ اور حماس کے جنگجو گوریلوں کے سامنے زچ ہو جاتی ہے، باقاعدہ فوج وہاں داخل ہو جائے تو کچھ نہیں کر پائے گی۔

اس بات کو صیہونی بھی سمجھتے ہیں تبھی سب سے پہلے شام سے بشار الاسد کا صفایا کیا گیا جس میں ترکی اور دیگر اسلامی ممالک نے اس کی بھرپور مدد کی۔ نتیجے میں ایک کمزور حکومت قائم ہوئی جس کے بعد شام میں بشار کے زمانے کی مضبوط عسکری و دفاعی تنصیبات پر صیہونیوں نے حملے کرکے ان کو نیست و نابود کر دیا۔ شام کی صورت میں ایران سے لبنان تک ایک سپلائے لائن قائم تھی۔ ایران بآسانی عراق، وہاں سے شام اور پھر وہاں سے صیہونی ملک تک رسائی رکھتی تھی۔

شام کی سرنگونی سے پہلے حزب اللہ کو کمزور کر دیا گیا تھا۔ پیجر کے حملوں کے ذریعے ان کی فرنٹ لائن تباہ کر دی گئی اور پھر ان کی اعلی قیادت کو ختم کر دیا گیا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب انہوں نے ایران سے براہ راست مقابلے کے لئے کیا اور سب سے پہلے انہوں نے اپنی سرحدوں کے پاس خطرات کو بالکل ختم کر دیا۔ رہ گئے فرقہ پرست مسلمان، تو وہ اسی بات پر بغلیں بجاتے رہے کہ شہزادوں نے شام میں فتح حاصل کر لی، یہ جانے بغیر کہ وہ عالم اسلام کو کس قدر کمزور کر چکے ہیں۔ سوچئے آج شام میں بشار الاسد کی حکومت ہوتی اور حزب اللہ بھی پہلے کی طرح مضبوط ہوتی تو اس وقت منظرنامہ کیا ہوتا؟ آج ایران کے ساتھ شام اور لبنان سے بھی میزائل برسائے جا رہے ہوتے اور بعید نہیں کہ شام کی جانب سے ایران باقاعدہ لشکر کشی کرتا۔

یہ بات بھی بعید نہیں کہ 8 اکتوبر کا حماس کا حملہ کوئی فالس فلیگ قسم کا تھا تاکہ ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ان تمام کارروائیوں کو جواز فراہم کیا جائے۔ مستند اطلاعات یہ ہیں کہ یہ آپریشن حماس کا اپنا عمل تھا جس کے لئے اس نے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ حماس نے نادان دوست کا بھرپور کردار کیا ہے، یہ خود بھی ڈوب گیا اور کئی ساتھیوں کو ساتھ لے ڈوبا۔ پھر یرغمال اسرائیلی قیدیوں کو اب تک رہا نہیں کیا جس کو جواز بنا کر صیہونی ریاست ایک ایک کرکے اپنے اہداف پورے کر رہی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حماس صیہونی ریاست کا اصل مسئلہ نہیں، اس کا اصل مسئلہ ایران ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایران کو کمزور کر دیا جائے تو خصّی اسلامی ممالک اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہ ایران ہی تھا جس نے اپنے پروکسیز کے ذریعے اس کو ٹف ٹائم دیا ہوا تھا۔

صیہونی ریاست نے آخری چال کے طور پر امریکہ کو ایران کے ساتھ مذاکرات پر لگا دیا اور خود ایران پر حملے کی تیار کرنے لگا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ایران کا اصل معاملہ اندرونی ہے، اس کی اپوزیشن جو اینٹی انقلاب ہے یعنی اسلامی حکومت کی مخالف ہے، مختلف گروہوں کی شکل میں ایرانی حکومت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ یہ عام ایرانی ہیں جو ایران میں عام لوگوں کی طرح رہتے ہیں۔ یہ جب تک اپنے دل کی بات کا اظہار نہ کریں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ حکومت مخالف ہیں۔ یہی لوگ ایران کے مختلف اداروں میں گھس جاتے ہیں اور امریکہ و صیہونی ریاست کے لئے جاسوسی کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو صیہونی ریاست استعمال کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اس قدر کامیابی سے آپریشن کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ ہمارے لوگ ایران کے اندرونی حقائق سے آگاہ نہیں تو تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ صیہونی کس قدر آرام سے ایران کے اندر کامیاب حملے کر لیتے ہیں، حالانکہ ان زمینی حقائق کا ادراک بہت ضروری ہے۔

گزشتہ شب ایران نے صیہونی حملوں کا جواب دیا جو انتہائی بھیانک تھا۔ صیہونی دفاعی نظام اس کی تاب نہ لا سکا اور اہم اہداف تباہی کے مناظر پیش کر رہے تھے۔ جانی نقصان حسبِ توقّع کم ہوا کیونکہ وہاں کسی بھی ایرانی حملے کے پیشِ نظر بنکر بنے ہوئے ہیں جہاں سائرن بجتے ہی شہری اور سرکاری عہدیدار پناہ لے لیتے ہیں۔ صیہونی ریاست کا سائز میں چھوٹا ہونا اس کے لئے بہت بڑی strength ہے کیونکہ چھوٹے علاقے کو محفوظ کرنا آسان ہوتا ہے۔ آبادی بھی کم ہے تو بنکر بنانے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں ہے۔

ایران مزید حملے جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ صیہونی بھی مزید حملوں کی دھمکی دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشرقِ وُسطی کا منظر نامہ کیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ اقوامِ عالم اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان دونوں ممالک کو مزید کارروائیوں سے روک لیں اور پھر امریکہ ایران پر مذاکرات کے لئے دباؤ ڈالے۔ حالیہ صیہونی حملے بھی اسی کی ایک کڑی ہے تاکہ ایران مجبور ہو کر مذاکرات کی میز پر آ جائے۔ اس تناؤ کو کم کرنے میں سعودی حکومت ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہے جس کی آج کل ایران کے ساتھ گاڑھی چھن رہی ہے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ لڑائی مزید بڑھ جائے اور پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس صورت میں ایران امریکہ و اسرائیل کے لئے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔ ایران نہ تو غزہ ہے اور نہ اردن، یہ ایسا ملک ہے جس نے آٹھ سالہ مُسلّط کی گئی جنگ کو کامیابی سے جھیلا ہے۔ آج اگر اسلامی ممالک ایران کا ساتھ دیں تو صیہونیت نیست و نابود ہو سکتی ہے لیکن یہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان میں بیشتر ڈکٹیٹر ہیں جن کو اپنی ناجائز حکومت کی تائید کے لئے امریکہ کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا کردار بہت اہم ہے جو اب تک بخوبی نبھا رہا ہے۔ کل قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں نے ایران کے حق میں قراردادیں پاس کیں اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب نے کھل کر ایران کا ساتھ دیا۔ ایران کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اس وقت بھارت صیہونیوں کے ساتھ کھڑا ہے وہیں پاکستان اس کا کھُل کر ساتھ دے رہا ہے، لہذا اس کو دوست دشمن کی صحیح پہچان ہونی چاہیے۔

دیکھتے ہیں کہ مشرقِ وُسطی کا منظرنامہ کیسے تبدیل ہوتا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali