Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Boti Chokhar

Boti Chokhar

بوتی چو کھر

گلگت بلتستان میں متعدد ایسی جگہیں ہیں جہاں بدھ مت کے آثار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بلتستان میں اسلام برصغیر کے دیگر علاقوں کی نسبت دیر سے پہنچا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی تک یہاں کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ یہ لداخیوں کی طرح بدھ مت کی شاخ لاما ازم کے پیروکار تھے جس کو تبتی بدھ ازم بھی کہا جاتا ہے۔

کھرمنگ کے موضع پاری میں یہ آثار قدرے بلندی پر "وے گو" کے مقام کے پاس موجود ہیں جس کو مقامی لوگ "بوتی چو کھر" کہتے ہیں، جس کے معنی ہوئے "بدھ راجہ کا قلعہ"۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کسی زمانے میں بدھ راجہ کا قلعہ تھا۔ یقیناََ یہ اس زمانے کی بات پے جب یہاں بدھ مت کا عروج تھا۔ جب مسلمانوں نے حملہ کیا تو یہاں سے بدھ راجہ کی بہن یا بیٹی نے اس چٹان کے پیچھے کھائی میں چھلانگ لگا کر جان دے دی تاکہ مسلمانوں کے ہاتھوں بطور مال غنیمت نہ لگے اور اس کی عزت محفوظ رہے۔

میرا گمان ہے کہ یہ حملہ سکردو سے ہوا ہوگا جو کھرمنگ کے مقابلے میں تھوڑا قبل مسلمان ہوا تھا۔ بلتستان کے نامور دانشور یوسف حسین آبادی کے مطابق یہ حملہ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے کیا تھا۔ انہوں نے ہی آگے بڑھ کر لداخ تک کو فتح کر لیا۔ معروف شیعہ عالم، اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور کے قاضی، شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری نے علی شیر خان انچن کی لداخ کی فتوحات اور کثیر مال غنیمت حاصل کرنے کے بارے میں "مجالس المومنین" میں "تبت" کے عنوان سے لکھا ہے۔ ماضی قریب تک بلتستان کو "تبت خورد" یعنی لٹل تبت کہا جاتا تھا۔

اس مقامی کہانی میں کتنی حقیقت ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس زمانے کی کوئی مدون تاریخ ہمیں نہیں ملتی۔ اس چٹان کے آس پاس کسی قلعے یا اسٹرکچر کے آثار بھی مجھے نہیں ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دیگر چٹانوں کی طرح ہے جہاں بدھ مت کی نشر و اشاعت کے لئے مخصوص منتر یا دعائیہ کلمے لکھے گئے تھے۔ اس چٹان پر قدیم بلتی/ تبتی رسم الخط میں ایک بدھسٹ منتر لکھا ہوا ہے۔ اس کو اردو رسم الخط میں لکھیں تو یوں تحریر بنتی ہے:

"اوم منے پدمے ہم"

یہ کلمہ عبادت کے وقت بدھ راہبوں (بھکشووں) کی زبان پر جاری رہتا تھا۔ یہ مسلمانوں کے بسم اللہ جیسا ہے جس کو بدھ مت کے پیروکار خیر و برکت کے لئے پڑھتے ہیں۔ یہ عبارت بلتستان کے متعدد چٹانوں پر کندہ ہے۔ پاری میں موجود یہ مقام اب بھی واضح اور اچھی حالت میں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چٹان پر مارخور بھی بنے ہوئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ چٹان بہت قدیم ہے۔ یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں وقت کے ساتھ ساتھ یہ آثار مرتب ہوتے گئے۔ مارخور کی تصویریں بھی گلگت بلتستان میں مختلف چٹانوں پر ہیں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ چٹانوں پر یہ شکلیں اس خطے کے ابتدائی آبادکار بناتے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر شکار کرکے گزارہ کرتے تھے۔ یقیناََ اس وقت ان علاقوں میں مارخور بکثرت پائے جاتے ہوں گے۔ یہ نشانات مخصوص علامات تھے تاکہ آنے والوں کو بتا سکیں کہ وہ شکار کے لئے نکلے تھے۔ بہرحال کچھ وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ یہ شکلیں کس لئے بنتی تھیں۔

بعد میں جب یہاں کی زبان نے ترقی کی اور بدھ مت رائج ہوا تو تبتی رسم الخط میں یہاں بدھ منتر لکھا گیا۔ عین ممکن ہے کہ قریب ہی کوئی بدھ عبادتگاہ ہو جیسے کوئی گونپہ یا سٹوپا جہاں بھکشو ریاضت کرتے ہوں جس کے آثار اب نظر نہیں آتے۔ بدھ مت میں آبادی سے بلندی پر عبادت گاہ بنانے کا رواج ہے جہاں بھکشو دنیا کی لذات ترک کرکے عبادت و ریاضت کرتے تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد شاید یہ مقامات مٹا دیے گئے لیکن چٹان پر موجود یہ عبارت بچ گئی۔

معلوم تاریخ کے مطابق کھرمنگ میں ابتدائی ایام میں کسی انٹھوک نامی شخص نے حکومت کی۔ کھرمنگ خاص میں ایک قلعہ اب تک انٹھوک کھر کے نام سے موجود ہے۔ کہتے ہیں بعد میں لداخیوں نے کھرمنگ پر قبضہ کیا۔ معروف بلتی محقق یوسف حسین آبادی کے مطابق پاری میں موجود یہ آثار اسی دور کے ہیں۔ لداخیوں نے کھرمنگ خاص، پاری اور پرکوتہ (موجودہ نام مہدی آباد) میں اپنے کھرپون (قلعہ دار) بٹھائے۔ عین ممکن ہے کہ کبھی یہاں "بوتی چو" میں قلعے کے آثار ہوں لیکن اس بدھ منتر کو اس دور سے حتمی طور پر جوڑنا درست نہ ہوگا کیونکہ بلتستان میں اسلام کی آمد سے قبل بدھ مت اظہر من الشمس ہے۔ اگر یہاں آثار قدیمہ کی کھوج لگائی جائے تو عین ممکن ہے کہ قریب میں ہی بدھ مت کے آثار دریافت ہو جائیں۔

بدھ مت کے آثار پاری کے علاوہ سکردو میں منٹھل نامی جگہ پر موجود ہیں جہاں گوتم بدھ، اس کے چیلوں کی تصاویر اور اس کی تعلیمات کندہ ہیں۔ وہاں ایک سٹوپا کے آثار بھی ہیں۔ سکردو میں ہی کشمراہ کے مقام پر ریڈیو پاکستان کی عمارت کے پاس ایک چھورتن کے آثار مل چکے ہیں۔ خپلو خاص میں موضع سلینگ میں راجہ کے محل کی پشت پر لستیانگ پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر مہاتما بدھ کا چہرہ بنا ہوا ہے۔ اس کے پاس سٹوپا اور گونپہ کی تصاویر موجود ہیں لیکن آثار مخفی ہیں۔ علاوہ ازیں بدھ سٹوپوں کی تصاویر گول، یوگو، بشو اور سرموں نامی جگہوں پر بھی موجود ہیں۔ خپلو کے سرموں نامی جگہ پر بدھ گونپہ کی بنیادیں اب تک موجود ہیں۔

بلتستان میں بطور خاص محکمہ آثار قدیمہ کو فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ عالمی لیول کے ماہرین کو ان علاقوں کو ایکسپلور کرنے کی دعوت دی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ آثار قدیمہ کے بیش بہا خزانے یہاں سے مدفون ملیں گے۔ ان کی دریافت سے علاقے میں سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔

اس مقام کے پاس "وے گو" تک جیپ سڑک حالیہ کچھ سالوں میں بنائی گئی ہے۔ لیکن آپ گاڑی نیچے لکڑی سے بنے پل کے پاس پارک کرکے چڑھ کر اوپر بھی آ سکتے ہیں۔ قریب ہی موضع پاری کا مرکزی امام بارگاہ موجود ہے جس کو یہاں "ماتم سرا" کہتے ہیں۔ اس جگہ پاری والوں کا اجتماعی قبرستان بھی ہے اور ایک بلند مقام پر میرے جد آقا سید محمود شاہ رضوی قدس سرہ کا مزار اقدس بھی ہے جو پاری میں مرجع خلائق ہے۔ ہم انشاءاللہ آپ کے متعلق بعد میں تفصیل سے لکھیں گے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali