Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Imran Ali Shah
  4. Taleem Ko Daimi Rukhsat De Dain

Taleem Ko Daimi Rukhsat De Dain

تعلیم کو دائمی رخصت دے دیں

آپ کا اس جملے سے اکثر واسطہ پڑتا ہوگا کہ امید پر دنیا قائم ہے اور ایسا ہی ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا چاہیے، ہمیں آنے والے دنوں کے لیے اپنا نقظہ نظر یہی رکھنا چاہیے کہ آنے والے دن ہمارے لیے نوید مسرت لائیں گے، مگر پاکستانی قوم کے لیے تو جیسے خوشی، امید اور تابناک مستقبل جیسے تمام الفاظ بے معنی سے ہو کر رہ گئے ہیں، 25 کروڑ کے لگ بھگ آبادی والا ملک، روز اول سے لے کر آج تک، اپنی معاشی خودمختاری کے حصول میں معذور دکھائی دیتا ہے، طبقاتی نظام نے مادر وطن کے نظام مملکت کو یرغمال بنا رکھا ہے، صاحبان اقتدار کے نزدیک عوام الناس کی زندگیوں سے جڑے مسائل کا حل سیاسی جملے بازی و شعبدہ بازی کا علاؤہ کچھ بھی نہیں ہے، پاکستان میں اگر کسی امر کا تسلسل ہے تو وہ، صرف امراء کے سرمائے میں مسلسل اضافے کا ہے۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جو زوال پزیر نہ ہو، موٹر وے پولیس کی کارکردگی کے بڑے دعوے سنے تھے، مگر اب اس پر بھی "خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے" کے مصداق دیگر محکمہ جات کا اثر پڑتا دکھائی دے رہا (اس موضوع پر ایک جامع تحریر کی جائے گی) ان کی کارکردگی بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔

حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، مگر شعبہ تعلیم کسی بھی ملک کے لیے نہایت کلیدی کردار کا حامل ہوا کرتا ہے، لیکن ہمارے ملک کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں شعبہ تعلیم ایک تجربہ گاہ کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ہے، اس وقت بھی ملک میں بیک وقت بہت سارے تعلیمی نظام رائج ہیں، لیکن اگر میعار تعلیم کی بات کی جائے تو وہ نہایت ابتر صورتحال کا حامل ہے، رہی سہی کسر آئے روز نت نئی اور غیر منطقی، پالیسی سازی اور اس کے اطلاق نے پوری کردی ہے، اگر بات اعداد و شمار کے حوالے سے کی جائے تو، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں۔

پی آئی ای کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ اور بلوچستان میں 31 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں، اسلام آباد میں تقریباً 80 ہزار تعلیم سے محروم ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ پاکستان پرائمری سطح کی تعلیم کے بنیادی اہداف، صفر فیصد خارجہ، سو فیصد داخلہ اور بہترین میعار تعلیم کے حصول کے عالمی طور طے شدہ اہداف سے کوسوں دور ہے، اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آ رہی ہے، جبکہ اسی مدت میں دنیا کے دوسرے ملکوں نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ سری لنکا کی شرح خواندگی 97 فیصد سے اوپر ہے۔ جنوبی کوریا، ملائشیا، سنگاپور اور متعدد دوسرے ممالک تعلیم کے میدان میں کہیں آگے جاچکے ہیں۔

2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کیا جاچکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا بنیادی فیصلہ ہے جو صوبائی خودمختاری کے مطالبات اور ضروریات کے پیشِ نظر کیا گیا۔ بظاہر یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں جہاں وفاقی طرزِ حکومت پایا جاتا ہے تعلیم صوبوں ہی کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل غیرمنقسم ہندوستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں بھی تعلیم کو صوبوں کی ذمہ داری ٹھہرایا گیا تھا۔ اس وقت ہندوستان امریکہ اور کئی دوسرے وفاقی ممالک میں تعلیم بڑی حد تک صوبوں ہی کے دائرۂ کار میں شامل ہے۔ پاکستان میں آزادی کے بعد البتہ تعلیم کو مرکزی مضمون بنا دیا گیا۔

آئینی اعتبار سے یہ 1973ء کے دستور میں مشترکہ فہرست میں شامل تھی لیکن کیونکہ ملک میں مجموعی منصوبہ بندی پر مرکز کا کنٹرول تھا لہٰذا تعلیم بھی مکمل طور پر مرکز ہی کے اختیار میں چلی گئی۔ اب جبکہ تعلیم صوبوں کو منتقل کردی گئی ہے اور مرکزی وزارتِ تعلیم سولہ دیگر مرکزی وزارتوں کی طرح ختم ہوچکی ہے، صوبوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ وہ برس ہا برس سے اختیارات اور وسائل کے طلب گار رہے ہیں، اب یہ دونوں چیزیں ان کو دستیاب ہوچکی ہیں تو ان کی آزمائش کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔

صوبے کس طرح تعلیم کے شعبے کو چلاتے ہیں، ان کی کارکردگی مرکزی وزارتِ تعلیم کی اس کارکردگی سے بہتر ہو پاتی ہے یا نہیں جو خود سوالیہ نشان بنی رہی تھی، یہ سب امور آنے والے ماہ و سال میں واضح ہو پائیں گے کیا گیا ہے، مگر حالات سنورتے نظر نہیں آتے، موجودہ حکومت پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے ہفتے کی چھٹی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتے کا روز اساتذہ کی ٹریننگ کیلئے مختص ہوگا۔ رانا سکندر حیات نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ پر کام کا بوجھ ہے، سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سے بوجھ کم کیا گیا۔

وزیر تعلیم پنجاب کے مطابق پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں پیر سے جمعہ تک تدریسی عمل ہوگا، پنجاب کے سرکاری اسکولوں کے اوقات کار بڑھا دینگے۔ ہفتے کا روز اساتذہ کی ٹریننگ کیلئے مختص ہوگا، اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو نظام تعلیم ویسے ہی مفلوج ہے اور جس میں ایک سال کے دوران سو سے زائد چھٹیاں پہلے سے ہی موجود ہیں، وہاں اس قسم کے فیصلے کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے، گرمی بڑھ جائے چھٹیاں کردو، سردی بڑھ جائے چھٹیاں دے دو، کوئی سیاسی تحریک زور پکڑ لے تو سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں چھٹیاں کر دو، کوئی وباء پھوٹ جائے تو چھٹیاں کرو دو۔

2020-2021 کے دو سال پوری دنیا کے لیے کورونا وائرس 19 کی وجہ سے نہایت بدترین قرار پائے گئے، پاکستان میں تقریباً دو سال تعلیمی نظام اس مہلک وباء کے پیشِ نظر مفلوج رہا، ہمارے بچوں کا بہت بہت نقصان ہوا ابھی کورونا وائرس 19 کے دنوں میں ہونے والے تعلیمی عمل میں تعطل کے نقصانات کا ازالہ نہ ہوا پایا تھا اور جو کمی رہ گئی تھی وہ ہفتے میں دو چھٹیاں پوری کر دیں، نظام تعلیم نہ ہوا گویا ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے، اس سے تو بہتر ہے کہ حکومت "نظام تعلیم" کو ہی دائمی رخصت دے، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، خدارا صاحبان اقتدار ہوش کے ناخن لیں، اور اس قسم کی پالیسی سازی سے اجتناب کریں، ہمارا ڈگمگاتا اور ہچکولے کھاتا نظام تعلیم، مزید چھٹیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، بلکہ ایسا نظام تعلیم وضع کیا جائے جو کہ ہمارے بچوں کو اس قابل بنا دے کہ وہ عالمی میعار پر پورا اتر پائیں، اگر ہمارا نظام تعلیم جدید خطوط پر استوار نہ ہو پایا تو تو ہم دنیا سے ہزاروں سال پیچھے رہ جائیں گے۔

پاکستان کا ستتر سال کا تعلیمی سفر مکمل طورپر بے سود قرار نہیں دیاجاسکتا کیونکہ کسی خاص حد تک خواندگی کی شرح اور تعلیم کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے تاہم یہ قابلِ اطمینان بھی نہیں ہے۔ پاکستان اپنی مجموعی قومی ترجیحات میں تعلیم کو مناسب جگہ نہ دینے اور تعلیم کے شعبے میں پائے جانے والے بہت سے تضادات کی بنا پر کوئی قابلِ ذکر مقام حاصل نہیں کرسکا۔ یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے کچھ تعلیمی سفر طے تو کیا ہے لیکن یہ بحیثیت مجموعی ہماری قوم اور ملک کے لیے تعلیم کامیابی اور ترقی کا زینہ نہ بن پائی ہے۔ حکومت کو اپنی ترجیحات کا از سر نوء جائزہ لینا ہوگا اور شعبہ تعلیم میں ایسا نظام لانا ہوگا، جو کہ عالمی میعار پر پورا اترے، اگر ہم نے اقوام عالم کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں ایک مؤثر نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا، تاکہ تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دے سکیں۔

About Syed Imran Ali Shah

Syed Imran Ali Shah, a highly accomplished journalist, columnist, and article writer with over a decade of experience in the dynamic realm of journalism. Known for his insightful and thought-provoking pieces, he has become a respected voice in the field, covering a wide spectrum of topics ranging from social and political issues to human rights, climate change, environmental concerns, and economic trends.

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat