Mosamyati Tabdeeli Aur Pakistan Ki Tayyarian Kahan Tak Hain
موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی تیاریاں کہاں تک
پروردگار عالم نے پوری کائنات کو اس قدر حسین پیمانے پر خلق کیا کہ، اس کی مصوری کا احاطہ کرنا، انسانی فہم و ادراک کے بس سے قطعی طور پر باہر ہے، خالق و مالک خدائے بزرگ و برتر نے اپنی محبوب ترین مخلوق انسان جسے اس نے، اشرف المخلوقات بنایا، اس کے لیے، کرہ ارض کو کروڑوں خزانوں سے مزین فرمایا، حضرت انسان خالق کائنات کی جانب سے انعامات کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا، رب العالمین نے انسان کو اپنی نیابت عطاء کرکے اسے عوج کمال سے سرفراز فرماء دیا۔
انسان نے مالک الملک کی کائنات کی ہر نعمت سے بھرپور فیض اٹھایا اور وہ آج بھی زمین کے سینے میں پوشیدہ راز، دفینوں اور خزائن کی کھوج میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے، مگر انسان نے جب قدرت کے نظام میں مداخلت کرنا شروع کی اور اس سے بے جا چھیڑ چھاڑ کی تو نتیجتاً، اسے اس امر کا خمیازہ بھگتنا پڑا، انسان نے دریاؤں کے رخ موڑے، پہاڑوں کے سینے کو چیر کر ان میں سے خزانوں کی تلاش کی، جیسے جیسے انسان نے ترقی کی منازل طے کیں، اس کا لالچ بھی قابو سے باہر ہوتا چلا گیا، درختوں کو کاٹ کاٹ کر بطور ایندھن استعمال کرنا شروع کردیا۔
پاک آب و ہوا کو صنعتی فضلے اور زہر آلود دھوئیں سے برباد کیا اور ایسا برباد کیا کہ، انسان کا اپنا سانس لینا بھی دشوار ہوگیا، انسان کے ہاتھوں جنم لینے والی سب سے تباہ کن آفت موسمیاتی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہونا ہے جس کی چند بنیادی وجوہات میں درجہ حرارت بڑھانے میں معاون گیسز مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا بڑے پیمانے پر اخراج اور جنگلات میں نمایاں کمی ہونا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے انسانی صحت پر اثرات، غذائی اجناس کی کی پیداوار میں کمی، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، وبائی امراض کا پھیلاؤ، سیلاب، گرمی سردی کی شدت میں اضافہ ہونا، موسم کے دورانیوں کا طویل ہونا اور تغیر نما ہوتے جانا۔ برف کا پگھلنا، خشک سالی، وغیرہ ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) World Metearological Organization کے مطابق متواتر موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس دنیا بھر میں پہلے سے زیادہ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں دیکھنے میں آئیں جس سے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کے لئے خطرات بڑھ گئے۔ عالمگیر موسمیاتی صورتحال سے متعلق ڈبلیو ایم او کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ آٹھ برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال 'دھرتی ماں کے دن' سے پہلے جاری ہونے والی یہ رپورٹ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر اور تیز تر کمی لانے کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی کی پکار کا اعادہ کرتی ہے۔ مزید یہ رپورٹ خاص طور پر اُن انتہائی غیرمحفوظ ممالک اور علاقوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف خود کو مستحکم بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے بھی کہتی ہے جن کا اس تبدیلی میں بہت کم کردار ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج اور تبدیل ہوتے موسم میں"دنیا بھر کے لوگ شدید موسم اور موسمیاتی حادثات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ " ان کہنا ہے، کہ گزشتہ برس "مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔
ڈبلیو ایم او نے انسانوں پر شدید موسم کے اثرات کو محدود رکھنے میں مدد دینے کے لئے موسمیاتی نگرانی اور ایسے واقعات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام بنانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت واضح کی ہے۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے کہ، جن پر موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات مرتب ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کا دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں میں حصّہ نہ ہونے کے مترادف ہے، مگر یہ بھی بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ، موسمیاتی تبدیلی کے معاملے میں پاکستان کے ارباب اختیار نے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے، اس وقت بھی پاکستان میں جنگلات کے کٹاؤ کی صورتحال خطرناک حد تک تجاوز کر چکی ہے۔
عالمی پیمانے کے مطابق کسی بھی ملک معاشی ترقی اور صحتمند ماحول کے لیے اس کے کل رقبے کا کم از کم پچیس فیصد حصہ جنگلات پر محیط ہونا اشد ضروری ہے، جبکہ پاکستان رقبے کا 4 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے، اور یہ باقی ماندہ جنگلات بھی ٹمبر مافیا کی لالچ کی نذر ہونے کا خدشہ ہے، جنگلات کی تباہی اور ان می مسلسل کمی واقع ہونے کی وجہ سے، بیسیوں قدرتی آفات نے پاکستان کی معیشت اور استحکام کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
پچھلے تین عشروں میں پاکستان کو بدترین زلزلوں اور سیلابوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے اور مزید یہ کہ تباہی کا یہ سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، اور رہی سہی کسر ماحولیاتی آلودگی نے پوری کر دی ہے، حالیہ دنوں میں پاکستان کے اکثر علاقے سموگ کی لپیٹ میں ہیں، اس وقت لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے، اس کے بعد آلودگی میں کراچی کا نمبر آتا ہے، سموگ نے لاہور میں بسنے والوں کے لیے سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔
سموگ ایک فضائی آلودگی ہے، جو انسان کی دیکھنے کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسم گرما جانے کے ساتھ ہی جب دھند بنتی ہے تو یہ فضا میں پہلے سے موجود آلودگی کے ساتھ مل کر اسموگ بنا دیتی ہے۔ اس دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔ کیمیائی طور پر اس میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلانے سے نکلنے والا دھواں مثلاً بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے۔ اسموگ کی وجہ سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔
سموگ انسانی صحت کو بہت بری طرح متاثر کرتی ہے۔ کچھ لوگ سموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں، بشمول وہ لوگ جو سینے، پھیپھڑوں یا دل کے عارضہ کی شکایات رکھتے ہیں۔ سموگ کی صحت کو متاثر کردہ پہلی علامات گلے، ناک، آنکھوں یا پھیپھڑوں میں جلن ہوسکتی ہیں اور سانس لینا متاثر ہوسکتا ہے۔ اوزون کی اعلی سطح نظامِ تنفس کو پریشان کر سکتی ہے جس کی وجہ سے کھانسی اور گھرگھراہٹ ہوتی ہے۔ اسی طرح آلودگی اور سموگ الرجی کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔
محققین نے بتایا ہے کہ الرجی کے معاملات ان علاقوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں جہاں سموگ کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ دمہ کے حالات سموگ کی وجہ سے بْری طرح بگڑ جاتے ہیں اور یہ دمہ کے دورے کا باعث بن سکتے ہیں۔ برونکائٹس، نمونیا اور ایمفاسیما پھیپھڑوں کی کچھ ایسی حالتیں ہیں جو سموگ کے اثرات سے منسلک ہوتی ہیں کیونکہ یہ پھیپھڑوں کی پرت کو نقصان پہنچاتی ہے۔
سموگ کی وجہ سے لوگوں کو سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے، یہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رونماء ہونے والے وہ اثرات ہیں کہ جو نہ صرف ملکی معیشت کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ خدانخواستہ کسی ناقابل تلافی انسانی سانحے کو موجب بھی بن سکتے ہیں، پاکستان نے بطور ملک ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ ہونے کے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے ہیں، آنے والے دنوں میں یہ حالات مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے، موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کے مطابق کرہ ارض کا درجہ حرارت مزید بڑھے گا، تو ایسے میں ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں۔
پاکستان میں جنگلات کی پیداوار کو کم از کم 27 فیصد تک بڑھانا از حد ضروری ہے، سب سے پہلے تو موجودہ جنگلات کی بقاء کے لیے ٹھوس اقدامات درکار ہیں، اس وقت جنگلات کی حفاظت کے حوالے سے مؤثر اورقابل عمل قانون سازی کی اشد ضرورت ہے، تاکہ جنگلات کو کاٹنے والوں ان کی خرید و فروخت کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دلوائی جا سکیں، ملک کے کونے کونے میں میں قومی سطح کی شجرکاری و حفاظت شجرکاری کی مہمات کا آغاز کیا جانا چاہیے، "ہر بشر دو شجر" کو قومی نعرہ اور نصب العین قرار دیا جانا چاہیے، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کو لیڈ رول دیا جانا چاہیے، سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر باقاعدگی سے ان موضوعات پر مباحثے، تقاریر اور آگاہی کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔
حکومت کو ماحول دوست بیج کھاد اور دیگر زرعی معاونات پر تحقیق کے لیے زرعی شعبے سے وابستہ ماہرین کی بھرپور معاونت کرنی چاہیے تاکہ کیمیائی کھادوں اور کیمیائی ادویات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے فصلات محفوظ رہ سکیں، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس اثرات سے ملکی معیشت اور قیمتی انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔