Zam Zam Therapy Javed Chaudhry Aur Desi Liberals
زم زم تھراپی جاوید چودھری اور دیسی لبرلز
انسان کیا عجب شے ہیں ایک ایسی گتھی جسے جتنا سلجھنے کوشش کی جائے یہ اتنی ہی الجھ جائے اور پھر بطور خاص ہمارے ہم وطن بھائیوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے اپنے عجیب و غریب فطرت کی وجہ سے ہم ہومو سیپئین کی ایک مضحکہ خیز قسم ہے جو اپنی شہرت لوگوں میں نام پیدا کرنے اور ریڈرز یا دوسرے لفظوں میں فالورز بنانے کے لئے ہم کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں نہ کسی اخلاقی قدر کی پرواہ نہ سچ اور جھوٹ کا ادراک اور نہ عقل و خرد سے کوئی علا قہ۔ اپنی شہرت کے حصول کے اس قبیح داعیے کے اطمینان کے لئے بس اپنی ہی دھن میں ہم وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے چلے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
شہرت کے حصول میں چاہے ہمیں اپنے مذہب کو بھی رگیدنا پڑے تو ہم بلا جھجک وہ بھی کر گزرتے ہیں اور کوئی عار تک محسوس نہیں کرتے اب حال ہی میں ہمارے ایک عزیز جس کے بلاگز اکثر نظر سے گزرتے رہتے ہیں ان صاحب نے ملک کے مشہور و معروف کالم نگار جناب جاوید چودھری پر عجیب و غریب تنقید کی ہے جسے پڑھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اور یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ ان صاحب کو مسئلہ جاوید چوہدری صاحب کے اسلوب تحریر سے ہیں یا آب زم زم کے تقدس اور برکت سے (یاد رہے کہ ہمارے ہاں کچھ دیسی لبرلز کو مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہے) نہ جانے ان صاحب کو کیا سوجھی کہ ایک عرصہ پہلے لکھے گئے کالم پر یوں بھونڈی اور غیر شائستہ تنقید کی ضرورت پیش آئی۔
جاوید چودھری صاحب نے ایک مشہور ڈاکٹر کے کینسر کے حوالے سے خود ڈاکٹر کی زبانی یہ واقعہ سنایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب ایک خطرناک امپولا آف واٹر (Ampulla of vater) نامی جلد کے کینسر میں مبتلا ہوگئے جس کا کوئی شافی علاج سردست میڈیکل سائنس دریافت نہیں کرسکا ان صاحب نے آپریشن اور کیمو تھراپی بھی کرائی مگر صحت روزبروز مضمحل ہوتی رہی پھر اس کے بیٹے نے مشورہ دیا کہ وہ مکہ جاکر زم زم پانی سے نہائے اور سیر ہوکر پئیے شاید شفا مل جائے جس طرح ہر مسلمان ظاہری اسباب سے مایوس ہوکر بارگاہ خداوندی میں اپنی بیماریوں سے شفا یابی کی دعا کرتا ہے اسی طرح وہ ڈاکٹر صاحب بھی مکہ آئے اور خدا سے دعائیں کی اور زمزم کی برکت سے وہ شفایاب ہوگئے۔۔
اب اگر کوئی بندہ زمزم کے پینے سے شفایاب ہوجائے تو آخر ان کو تکلیف کیا ہے ان بلاگر صاحب نے اس سے یہ مطلب نہ جانے کہاں سے اخذ کیا کہ اب ہر بندہ زمزم سے نہائے علاج جائے بھاڑ میں حالانکہ جاوید چودھری صاحب نے اس تحریر کو سپرد قرطاس کرنے کی یہ وجہ بتائی بھی کہ وہ صاحب ایک مشہور ڈاکٹر ہے اور ظاہر ہے اس طرح کا معجزہ ایمان و اتقان میں اضافے کا سبب بنتا ہے کہ میڈیکل سائنس میں ید طولی رکھنے والا ایک ڈاکٹر یہ واقعہ سنا رہا ہے انہوں نے بالصراحت یہ لکھا کہ اس سے مقصود ہرگز یہ نہیں کہ بندہ علاج چھوڑ کر صرف زم زم سے نہانے اور اس کو پینے پر ہی اکتفا کرلے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا تبھی ضبط تحریر میں لایا گیا اور ظاہر ہے کوئی بصیرت و بصارت سے پیدل شخص بھی اس سے یہ مطلب نہیں نکال سکتا۔۔
مگر بلاگر صاحب نے نہ صرف اس واقعے کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ یہ تنقیدی گرز جاوید چودھری کی شخصیت پر بھی پوری طاقت کیساتھ آلگا اور انتہائی غیر مہذب اخلاق باختہ اور بازاری لہجے میں یہ تک کہہ ڈالا کہ جاوید چودھری بے پرکیاں اڑاتے اور مبنی بر جھوٹ واقعات بیان کرتے ہیں بقول ان صاحب کے جاوید چودھری صاحب چھوڑتا ہے بصد احترام عرض ہے کہ آپ نے بھی تو یہ بات چھوڑی ہے اگر فی الواقع ایسا ہے تو پھر کوئی دلیل پیش کردے کوئی واقعہ ایسا قارئین کے گوش گزار کردیجیئے کہ جس میں جاوید چودھری صاحب نے بقول آپکے چھوڑی ہوں وگرنہ یوں بھڑک مارنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔
مبنی بر عقل و منطق رویہ یہ ہوتا کہ اگر اس کالم سے بہت زیادہ مروڑ اٹھتا تو آپ خود اس ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ذرا تحقیق کی زحمت فرماتے اور یہ معلوم کرتے کہ اس واقعے میں سچائی ہے کہ نہیں اگر بالفرض وہ اس واقعے کی تصدیق نہ بھی کرتے تو یوں کسی کی شخصیت پر حملہ آور ہوکر یوں بازاری لہجے میں تنقید کرنا کہاں کی علمیت اور کہاں کی تہذیب ہے یہاں ذہنی کینوس پر ایک واقعہ ابھرا کہ جب نیل آرمسٹرانگ کے بارے میں یہ افواہ پھیلی کہ اس نے چاند پر پہنچ کر اذان کی آواز سنی تو ہندوستان کے جلیل القدر عالم مولانا وحید الدین خان صاحب نے باقاعدہ ان کو خط لکھ کر اس واقعے کی تصدیق کردی اور یہ افواہ جھوٹی ثابت ہوئی لہذا آپ بھی یہی طرزِ عمل اپناتے کہ جو ایک علمی رویہ ہوتا اب نہ کوئی دلیل اور نہ کوئی منطق اور کسی کی شخصیت پر یوں کیچڑ اچھالنا کہاں کا انصاف ہے۔۔
لہذا دست بستہ عرض ہے کہ ہماری قوم من حیث المجموع سنجیدہ مطالعے اور کتاب بینی سے منہ موڑ چکی ہیں اگر کچھ آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی ذی فہم لوگ مطالعے کا شغف رکھتے ہیں تو خدارا ان کو اپنی شہرت کے حصول کے چکر میں بد ظن نہ کیجئے وگرنہ پہلے سے شدت پسندی اور عدم برداشت سے کھوکھلی ہماری قوم کا یہ بچا کھچا شیرازہ بھی بکھر جائے گا اور ہم ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔۔