Saturday, 07 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (6)

Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (6)

واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (6)

حضرت امیر معاویہ کے جسمانی قویٰ جب اضمحلال کے اس حد کو چھو گئے جہاں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آن پہنچا تو آپ نے دیکھا کہ اب نہ تو ابوبکر و عمر جیسے اشخاص مسلمانوں میں موجود ہے جنہیں امت اسلامیہ کے سواد اعظم کا اعتماد اس درجے میں حاصل ہوں کہ اس بابت کوئی دوسری رائے موجود ہی نہ ہوں اور نہ کوئی ایسی دستوری روایت موجود تھی جس کی بِنا امرھم شوری بینھم کے اصول پر ہوں لہذا انہوں نے دورِ موجود کی بڑی سلطنتوں کے انتقالِ اقتدار کے موروثی طریقہ کار کو دیکھ کر اور اس کے دورس نتائج جان کر یہ فیصلہ کیا میں اپنی زندگی ہی میں مورثیت کی بنیاد پر اپنے بیٹے کو بطورِ خلیفہ نامزد کردوں ظاہر ہے یہ ایک نہایت مشکل فیصلہ تھا پیچھے امرھم شوری بینھم کا لافانی اصول موجود تھا اور اس سے روگردانی بڑے اختلاف کا باعث بن سکتی تھی۔

مگر آپ نے اپنی کمال بصیرت سے کسی بھی مثالیت پسندی میں مبتلا ہوئے بغیر یہ مشکل فیصلہ کر ڈالا بقول غامدی صاحب جب کسی بھی خدائی حکم پر عمل کرنا محال ہوں یعنی اس سے برے نتائج نکلنا کا اندیشہ ہوں تو اضطرار کے اصول پر اس سے روگردانی ہی عین منشاءِ خداوندی ہوتی ہے لہذا اس وقت بھی آپشنز صرف دو ہی تھے یعنی موروثیت کی بنیاد پر نئے امیر کا تقرر یا خانہ جنگی اور خونریزی کا لامتناہی سلسلہ۔ انہی میں سے امیر معاویہ نے پہلے آپشن کا انتخاب کیا اور یوں اس وقت کے معروضی حالات کے لحاظ سے یہ ایک ٹھیک سیاسی اقدام تھا۔

اس کے بعد حضرت حسین کے یزید کے خلاف اقدام کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ جب استبداد اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ دے اور ملک میں تغلب حاصل ہوجائے تو پھر اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اختلاف کسی صورت گوارا نہیں کیا جاسکتا یعنی استبدادی حکومت کسی بھی اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرسکتی۔

کسی بھی اختلاف کو برداشت نہ کرنے میں استبدادی حکومت کی بقا مضمر ہوتی ہے اگر وہ یہ اجازت دے دے تو پھر اس حکومت کی بقا ہرگز ممکن نہیں اس کے برعکس ایک جمہوری اور امرھم شوری بینھم کے اصول پر قائم حکومت میں اختلاف اور تنقید کو ہر صورت گوارا کیا جاتا ہے چنانچہ حضرت ابو بکرنے سعد بن عبادہ کے خلاف بیعت نہ کرنے کے باوجود کوئی اقدام نہ کیا اور حضرت عثمان نے جان دے دی مگر مدینے پر قابض باغیوں کے خلاف کوئی فوجی ایکشن نہیں لیا۔

مگر اس کے برعکس یزید کی حکومت ایک استبدادی حکومت تھی لہذا حضرت حسین کا بیعت نہ کرنا ان کو کسی طور پر گوارا نہ تھا لہذا انہوں نے وہی کیا جو ایک استبدادی حکومت کرتی ہے جہاں تک تعلق ہے حضرت حسین کے اقدام کی تو اس بابت غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ کسی استبدادی حکومت کو ماننے سے انکار کرنا کسی لحاظ سے بھی قابل اعتراض عمل نہیں بلکہ آرزوئے شریعت قابل تحسین و ستائش ہے یعنی اگر کوئی استبدادی حکومت اپنی رٹ قائم کرلے تو اس کی تبدیلی کے لئے جدو جہد کرنا اس کے انعقاد کو ماننے سے انکار کرنا اور جمہوری اصولوں پر سیاسی نظم کو منضبط کرنے کی سعی کرنا کیا تاریخ میں جرم اور ایک حکومت کے خلاف بغاوت سمجھا جائے گا؟ حاشا وکلا

غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ جب حضرت حسین کو امیر معاویہ کی وفات کی اطلاع پہنچی اور مروان نے ان کو یزید کی بیعت کرنے کے واسطے بھلاوا دیا تو آپ نے گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اور حرمین میں کسی بھی قسم کی بدامنی اور شورش کو گوارا نہ کرتے ہوئے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی اور مکہ سے ہوتے ہوئے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے نہ آپ کے پاس کوئی لشکر تھا نہ آپ نے کسی کو حکومت کے خلاف ورغلانے کی کوششں کی اور اگر بالفرض یہ رویہ بھی اپنا لیتے تو ایک استبدادی حکومت میں یہ بھی ایک جائز عمل ہوتا مگر آپ چپ چاپ وہاں سے نکلے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ عازم کوفہ ہوئے۔

غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک استبدادی حکومت کے نکتہء نظر سے بھی دیکھا جائے تو اگر ان کو کسی بغاوت کا خدشہ تھا تو وہ زیادہ سے زیادہ حضرت حسین کو کوفے میں نظر بند کرلیتے اور یزید سے براہِ راست مذاکرات کا اہتمام کیا جاتا مگر ابن زیاد اور ان کے حواریوں نے نہایت احمقانہ رویہ اختیار کیا ان کا حضرت حسین سے یزید کے لئے بیعت لینے پر اصرار سیاسی مذہبی اخلاقی اور سماجی حرکیات اور معروضی حالات کے لحاظ سے بالکل درست نہ تھا اور ان کی اس کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ انتہائی اقدام ہوا اور یوں خانوادہ رسول ﷺ کو بے دردی سے شہید کیا گیا یہ ہر لحاظ سے ان ناہنجار وں کا ایک دلخراش روح فرسا جگر شکن اور بے رحمانہ اقدام تھا جس نے اسلامی سیاس نظام کا حلیہ بگاڑ کر امت کی وحدت کے حصے بخرے کرکے ایک ایسی خلیج کو جنم دیا جسے آجتک پر نہ کیا جاسکا۔

اس واقعے کے حوالے سے انجنئیر محمد علی مرزا صاحب کا موقف کیا ہے اس کا ذکر اگے بلاگ میں۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Dastan e Lucknow Aur Dabistan e Lucknow

By Ali Akbar Natiq