Talibani Yalghar Aur Khushiyon Ki Bahar (1)
طالبانی یلغار اور خوشیوں کی بہار (1)
آپ اسے ہماری بدقسمتی کہے، نوشتۂ تقدیر پر لکھی ہماری قسمت کا شاخسانہ قراردیں، ازروئے خدا ہماری فطرت میں ودیعت کردہ کج فہمی اور تنگ نظری کاپرتو سمجھیں یا دقیانوسیت اور معروضی حقیقتوں کے ادراک سے یکسر عاری ہمارے مخصوص سماجی پس منظر کا منطقی نتیجہ قرار دیں وجہ جو بھی ہو لیکن یہ ایک ناقابل تردید اور تلخ حقیقت ہے کہ ہماری پوری قوم نظری، مذہبی اور نسلی و لسانی تعصبات کے بحر بے پایاں میں سرتاپا ایسے غرق ہے کہ فہم و ادراک اور عقل و خرد کے زریں اصولوں سے بے بہرہ ہوچکے ہیں۔
مسئلہ چاہے علاقائی نوعیت کا ہو یا قومی نوعیت کا ہم اپنے اذہان پر تعصبات کا وہ ملمع چڑھا چکے ہیں کہ معروضی حالات زمینی حقائق اور مجموعی قومی مفاد کو یکسر نظراندازکرکے اپنی تنگ نظری اور کج فہمی کی وجہ سے اس مسئلے کے محرکات و عوامل کو جانے بغیر اس پر اپنی ہرزہ سرائی شروع کردیتے ہیں وقت کی حرکیات اور تاریخ کے فطری بہاؤ اور ارتقاء کا ادراک کیے بغیر تنگ نظریات سے متشکل ہوئے زوایہ نظر سے ہم حساس ترین اور اپنی ذات میں طویل المدتی اثرات کے حامل مسائل کو دیکھنا شروع کردیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ اگرچہ وقتی طور پر دلی تسکین کا باعث بنتا ہے مگر دوسری طرف اس مسئلے کے طویل المدتی مضر اثرات کا ادراک وقتی رومان کے طلسماتی فضا میں گم ہوجاتا ہے آپ حالیہ طالبان کے سبک رفتار یلغار کے تناظر میں اپنے مجموعی قومی رویوں کا تعمق نظری سے جائزہ لے آپ پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیگی۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ہمارے ہاں مذہبی جنونیت میں گندھی ایک ایسی جذباتی فضا قائم کی گئی کہ گویا پوری دنیا میں اسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ہو اسلامی خلافت کو تعبیر میں بدلنے کا عزم صمیم کرنے والا گروہ ظفر مند ہوکر عالمی اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن ہوچکا ہوں ایک عجیب وغریب اور سمجھ سے باہر جشن منانے کا سلسلہ چل نکلا۔
طالبان کی فتح پر شادیانے بجانے والوں اور اپنی زور قلم اور زور خطابات کو پوری قوت کے ساتھ استعمال میں لاکر گوہر افشانی کرنے والے دانشوروں سے میں بصد ادب و احترام دست بستہ عرض کروں گا کہ کیا انہوں نے خطے میں طالبانی فتح کی صورت میں رونما ہوئے اس غیر معمولی تغیر کا ہمہ جہت جائزہ لیاہے؟ کیا انہوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کیا ہے کہ پہلے سے مرتعش ہمارے ملک کے داخلی صورتحال پر اس کے کیا اثرات ہوگے؟
کیا میرے ان صاحب شعور دوستوں کے لئے یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ تین لاکھ نفوس پر مشتمل جدید سامان حرب سے لیس افغان فوج صرف پچھتر ہزار غیر تربیت یافتہ طالبان کے سامنے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دے؟ کیا ۸۳ ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکہ بہادر کی مرضی کے بغیر افغان فوج یوں بزدلی دکھانے کی جرات کرسکتی ہے؟ میں ان سے پوچھنا چاہتاہوں کہ ۲۰۱۸ میں ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ امریکہ اپنی دیرینہ دشمن یعنی طالبان کو قطر میں سیاسی دفتر کھولنے پاکستان پر دباؤ ڈال کر طالبان کے سرکردہ سیاسی لیڈر ملا عبدالغنی برادر کو رہاکرواکر فروری ۲۰۱۹ میں تمام افغان دھڑوں بشمول اپنی بنائی افغان حکومت کو یکسر نظرانداز کرکے طالبان سے براہ راست معاہدہ کرلے؟ کیا اس معاہدے سے طالبان کے مورال میں جان بوجھ کر اضافہ نہیں کیا گیا؟
کیاامریکہ کا چین کے خلاف برسرپیکار ایسٹ ترکستان اسلامک مؤمنٹ سے پابندی ہٹانا اور اس تحریک کے جنگجوؤں کا طالبان کے شانہ بشانہ لڑنا کسی عالمی گیم کا حصہ تو نہیں؟ یہ اور اس طرح کے کئی سنجیدہ سوالات ہے جن کا ذکر آئندہ کالم میں (جاری ہے)