Sabiq Governor Ki Jinsi Be Rah Ravi
سابق گورنر کی جنسی بے راہروی
دور جدید میں پروان چڑھے رجحانات ہمیں ہر گز قبول نہیں کہ دور موجود کی ترقی اور ایجادات کا پورا کا پورا قصر الحاد و کفر کی بدنما بنیادوں پر قائم و دائم ہے تسخیر کائنات کا عزم لیے دنیا کو حیرت انگیز ایجادات سے بہرہ مند کرنے والی اقوام کی تقلید ہماری سرشت میں نہیں کیونکہ خدا کے منکرین ان ملحدوں کا طرزفکر اپنانا ہماری دینی حمیت و غیرت کو ہرگز گوارا نہیں سائنسی علوم سے شغف اور اس کے حصول کا دوسرا مطلب اپنے دینی اور مذہبی تعلیمات سے روگردانی کے سوا کچھ نہیں لہذا سائنسی علوم سے عناد و عداوت ہماری دینی روایت کا ناگزیر حصہ ہے اقتضائے وقت کے ادراک کا ہمارے دینی فہم میں کوئی تصور نہیں قرن اولی کی رنگین فضاؤں میں تخیلاتی پرواز اور دورگزشتہ کے فتوحات پر فخر وانبساط ہی ہمارے دینی فہم کا لب لباب ہے۔
اوپر بیان کردہ اقتباس ہماری مجموعی ذہنیت کا ایک خلاصہ ہے جو اگرچہ جاہلیت تنگ نظری اور کج فہمی ہی کا نتیجہ ہے لیکن پھر بھی مذہبی ناقص فہم کی وجہ سے سائنسی اور جدید علوم سے احتراز سمجھ میں آتاہے کہ لوگ مذہب کے حوالے سے بے جا حساسیت کی وجہ سے علوم دنیا سے احتراز برتتے ہیں چلو مان لیتے ہیں اور یہ بات کچھ پلے بھی پڑتی ہے کہ مذہب سے محبت ان علوم کے حصول میں رکاوٹ ہے اگرچہ اس کی کوئی عقلی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
لیکن اگر ہماری قوم اتنی ہی مذہب پسند ہے تو ہمارے یہ دانشور حضرات ہمارے اخلاقی انحطاط و زوال کی کیا توجیہہ پیش کریں گے اب یہ عذر تو پیش نہیں کیا جاسکتا جو جدید علوم کے باب میں پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے دینی فہم میں اس کی کوئی جگہ نہیں اخلاقیات تو دین کے بنیادی مبادیات و مقدمات کا جز لاینفک ہے دین کا پورا فلسفلہ اخلاقی اصولوں پر قائم ہے دین کا بنیادی ہدف ہی انسانی نفس کی اخلاقی قباحتوں سے پاکیزگی ہے۔
اب جبکہ اخلاقیات دین کے مندرجات میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں تو کیا ہم آج اجتماعی سطح پر محاسن اخلاق کے منتہائے کمال پر فائز ہے؟ کیا جھوٹ بدیانتی ملاوٹ فریب کاری چوری چکاری شراب نوشی زنا حق تلفی گالم گلوچ غیبت تجسس بدگمانی دریدہ دہنی اور اس جیسے تمام اخلاقی رزائل ہماری قوم میں مفقود ہوچکے ہیں کیا ہماری قوم ایک تہذیب یافتہ باکردار پاکیزہ اور ہر قسم کے اخلاقی برائیوں سے پاک ہوچکی ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر اس بنیادی مقدمے میں ہم حق بجانب ہے کہ دینی تعلیمات کے حوالے ہم ایک حساس قوم ہے۔
لیکن کیا فی الوقع ایسا ہے؟ ذرا حالیہ سابق گورنر کے فحش ویڈیوز کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے تناظر میں اپنے آپ سے یہ سوال کرے اور اپنی گریبانوں میں جھانکیں کہ آج ہم محاسن اخلاق کے بلند مرتبوں پر فائز ہے یا ہماری پوری قوم رزائل اخلاق کا مجسم نمونہ بن چکی ہے؟
سابق گورنر نے انتہائی اخلاق باختہ حرکت کی اور جنسی بے راہروی کے مرتکب ہوئے یہ اپنی جگہ ایک قابل مذمت امر تھا لیکن یہ ایک فرد کے نجی زندگی کی ایک بدنما تصویر تھی لیکن کیا اس ویڈیو کی یوں سرعام تشہیر اور پورے ملک میں اس کی یوں پذیرائی اور سوشل میڈیا پر اس کا ٹاپ ٹرینڈ بننا ہماری اخلاقی پستی گراوٹ اور ازحد درجہ کمینگی کا ثبوت نہیں؟ کیا یہاں ہم اپنی مذہبی تعلیمات بھول جاتے ہیں کیا اس مقام پر ہماری مذہبی حساسیت گھاس چرنے چلی جاتی ہے کیا بات بات پر بھڑکنے والی ہماری مذہبی غیر ت و حمیت یکدم ماند پڑھ جاتی ہے؟
کیا ہمارے مذہب نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم کسی کے گناہ کو یوں اچھالے اور پورے ملک میں اس کی تشہیر کریں اور اس ویڈیوسے خوب محظوظ ہوکر بازاری اور اخلاق باختہ تبصرے کریں کیا ہمارے پیارے نبی کا طرزعمل یہ تھا کہ کسی انسان سے سرزد ہوئی گناہ کو خوب اچھال اچھال کے پیش کروں کیا ہم بخاری و مسلم جیسی حدیث کی امہات کتب میں مروی حضرت ماعز بن مالک سلمی کا واقعہ بھول چکے جب دربار رسالت میں خود زنا جیسے عمل قبیح کا اقرار کررہے ہیں لیکن آپ ﷺ بار بار لوٹ جانے اور توبہ کرنے کی تلقین کررہے ہیں حالانکہ ایک پیغمبر کے ساتھ ساتھ آپ ایک ریاست کے سربراہ بھی تھے اور یہ آپ کا قانونی اسحقاق تھا مگر آپ نے حدرجہ اس معاملے کو مخفی رکھنے کی کوشش کی۔
ہماری اخلاقی پستی اور گراوٹ کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم مذہب کے معاملے میں بھی منافقت کا شکار ہے؟ اگر ہم اتنے مذہبی لوگ ہے تو پھر اخلاقی پستی کے پاتال کی جانب ہماری اس تیز رفتار پیش رفت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ ذرا سوچئے۔۔