Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Pak Saudi Muahida

Pak Saudi Muahida

پاک سعودی معاہدہ

کہتے ہیں کہ نوشتۂ تقدیر پر کسی قوم کے زوال کا فیصلہ ثبت ہوتا ہے تو امکانات کی دنیا خودکار طور پر ایسے عوامل اور محرکات ترتیب دیتی ہے کہ بصیرت و بصارت میں تام اقوام بھی وقت کی ستم ظریفی کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ جاتی ہے۔ زمانے کا ستم انہیں ایسی تنگ گلی میں گھیر لیتا ہے کہ وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے لگتے ہیں اور ایسے بچگانہ فیصلے سرزد ہونے لگتے ہیں کہ ایک عام سا شخص بھی ان فیصلوں کی ذرا سی تحلیل کرکے ان میں موجود کمیوں اور کوتاہیوں کا طومار مرتب کرسکتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پر ثبت ان گنت فوت شدہ اقوام کے اسبابِ اضمحلال کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قدرت پھر ان اقوام کے اہل دانش اور فیصلہ سازوں کا عقل سلب کرلیتی ہے۔۔

یہی کچھ آج کے سپر پاور امریکہ کے ساتھ ہو رہا ہے گمانِ غالب ہے کہ ازروئے قدرت امریکہ کی اجارہ داری کے اختتام کا فیصلہ ہوچکا ہے تبھی اہل امریکہ جیسے عقل و دانش سے بہرہ مند لوگوں نے ٹرمپ جیسے نیم پاگل اور شہرت کے بھوکے شخص کے ہاتھ اپنی قمست گروی رکھ دی۔ وہی ٹرمپ جو امریکہ کو عظیم بنانے کا عزم لیے بدستور ایسے اقدامات کرتا جارہا ہے جو اس عظیم سپر پاور کی ہزیمت کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اس کی حشمت کا جنازہ نکال رہا ہے۔۔

منجملہ دوسرے اقدامات کے حال ہی میں طاقت کے خمار میں اپنے بدمست ناجائز بیٹے اسرائیل کو قطر پر تاخت کرنے کی اجازت دینا وہ بلنڈر ہے جس نے لمحوں میں عرب دنیا پر امریکی دفاعی گارنٹی کا کھوکھلا پن اشکار کردیا تیل سے مالامال عرب دنیا جو امریکی دفاعی یقین دہانیوں کے بدلے اپنی پوری دولت امریکہ اور مغرب میں جھونک رہا تھا اب انہیں شاید یقین محکم ہوگیا ہے کہ اپنی دفاع کے لئے امریکہ پر انحصار گھاٹے کا سودا ہے اور یوں دنیا کے متمول ترین خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کی بساط کھسکنے کا آغاز ہوچکا ہے۔۔

اگرچہ اہل عرب کا امریکہ پر عدم اعتماد صرف قطر حملے کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ داستان کافی طویل ہے سن پنتالیس میں شاہ عبد العزیز السعود اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کا سمجھوتہ تاریخ کا حصہ ہے جس میں روزویلٹ نے سرزمینِ عرب پر یہودیوں کو آباد نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر کچھ دنوں بعد روزویلٹ اپنے بیڈروم میں مردہ پائے گئے اور ان کے نائب ٹرومین نے اسرائیل کو سند جواز عطا کرکے عربوں کو پہلا دھوکہ دیا۔ کئی برسوں بعد جب سن دو ہزار انیس میں یمنی حوثیوں نے سعودی عرب کے سب سے بڑے آئل ریفائنریز کو نشانہ بنایا تو ریاض کو ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ کئی بلین ڈالر خرچ کرکے بھی امریکہ ہماری حفاظت میں سنجیدہ نہیں وگرنہ یہ حملہ ممکن ہی نہ تھا۔۔

جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تو اس نے ابراہم اکارڈ کے ذریعے عربوں کے سینے میں پیوست اسرائیل کو عربوں ہی سے تسلیم کروانے کی مہم شروع کردی۔ سعودی عرب نے واضح طور پر یہ سٹینڈ لیا کہ اگر ہم اپنے عوام کی مخالفت مول لیکر اتنا بڑا رسک لیں گے تو بدلے میں ہمیں اپنی بادشاہت اور اسرائیل جیسے بدمست ہاتھی سے حفاظت کے لئے ایسا دفاعی معاہدہ چاہیے جو نیٹو کے رکن ممالک کے مابین موجود ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد بھی عربوں کو ان سے خطرہ اسلئے ہیں کہ اسرائیل کا خنجر ہی اس غرض سے میڈل ایسٹ کے سینے میں پیوست کیا گیا ہے کہ میڈل ایسٹ میں ایک گریٹر اسرائیل کی وجود پذیری ممکن بنائی جاسکے جو ذایونزم (صہیونیت) کا اساسی اصول ہے مگر امریکہ عربوں اور بطور خاص سعودی عرب کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے پر ہرگز آمادہ نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد گریٹر اسرائیل کے خواب کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔۔

اس غیر یقینی اور عدم اعتماد سے پُر پس منظر میں جب اسرائیل نے گلف میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی قطر پر حملہ کیا تو اس پیش رفت نے گویا عربوں پر یہ حجت تمام کردی امریکہ پر انحصار سراسر پاگل پن ہے اور یوں اپنی حفاظت کے لئے پہلے سے تگ و دو کرنے والی عرب دنیا کے سب بڑے ملک سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک میچول ڈیفنس ایگریمنٹ سائن کردیا اور عالم اسلام میں پاکستان اس مقام پر فائز ہوگیا جس پر اسلامی دنیا کے قلب کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری ڈالی گئی۔۔

اب سوال یہ ہے کہ انتہائی کمزور معیشت کے حامل ملک پاکستان کو پورے اسلامک ورلڈ میں سے کیوں چنا گیا؟ تو اس کی بڑی وجہ تو معلوم و معروف ہے اور وہ ہے پاکستان کا واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونا جس کا سہرا ذولفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک اس ملک کے سیاسی قیادت کے سر جاتا ہے لیکن اس کے باوصف پاکستان کی وہ کامیاب ڈپلومیسی اور پاک بھارت جنگ مئی میں حیرت انگیز فتح بھی وہ عوامل ہے جو اس عظیم معاہدے کا باعث بنے۔۔

ایک طویل عرصے میں حریف ملک بھارت نے دفاعی اور معاشی لحاظ سے پاکستان پر برتری حاصل کرنے کی اعصاب شکن مشق کی اور خود کو دنیا کی پانچ بڑی معاشی اور دفاعی طاقتوں کے صف میں لاکھڑا کر دیا اور جب یہ یقین ہوگیا کہ اب پاکستان تر نوالہ ثابت ہوگا تب خطے میں طاقت کا توازن بدلنے اور اپنی برتری دنیا کو دکھانے کے غرض سے اپنے مقابلے میں ایک کمزور اور معاشی لحاظ سے ناتواں ملک پاکستان پر دھاوا بول دیا۔ اسلامی دنیا بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے پاکستان کی تباہی کا اندیشہ لیے بھاگ کر آئے اور پاکستانی حکومت کے سامنے گڑگڑا کر یہ درخواست کی کہ ہم غزہ کی تباہی کے بعد پاکستان کی تباہی دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، شاید دوسرا غزہ ہم افورڈ نہ کر سکے لہذا اپنے سے کئی گنا بڑے ملک اور دنیا کی پانچویں عظیم معاشی طاقت بھارت سے ٹکر نہ لوں۔۔

لیکن اس ناتواں ملک کی حکومت نے کمال مہارت اور تیز تر ڈپلومیسی سے بھارت کو ایگریسیو ملک ثابت کرکے نہ صرف دنیا کو ساتھ ملایا بلکہ اپنے بَل پر اپنے سے ہزار درجے طاقتور ملک کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ وہ جو ترنوالہ ثابت ہورہا تھا وہ لوہے کا چنا ثابت ہوا اور پوری دنیا میں بھارت کی طاقت اور جاہ و حشمت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلا۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس نے سعودی عرب کو مجبور کیا کہ وہ امریکہ کی بجائے پاکستان پر اپنی دفاع کے لئے انحصار کرسکتا ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کو آپشن بنانا گویا پاکستان کو امریکہ کے متبادل کے طور پر دیکھنا ہے جو یقیناً ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور یاد رہے کہ آج کل کی دنیا میں صرف میدان مارنا جیت تصور نہیں ہوتی بلکہ دشمن ملک کو دنیا کے سامنے بے وقعت کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے اور پاکستان نے تو کامیاب ڈپلومیسی سے بھارت کو ننگا کردیا جس کی وجہ سے امریکہ بھی بھارت پر اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔

لہذا پاک سعودی معاہدہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور شنید ہے کہ اس معاہدے میں دوسرے عرب ممالک بھی شامل ہونگے عجب نہیں کہ نیٹو طرز کا مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحادی فوج تشکیل پا جائیں جس کی بازگشت انٹرنیشنل میڈیا میں بھی سنائی دے رہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کی سربراہی بھی لامحالہ پاکستان ہی کو سونپی جائیں گی جو ایک تاریخ ساز لمحہ ہوگا انشاء اللہ۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali