Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Muhammad Ali Mirza Ki Giraftari

Muhammad Ali Mirza Ki Giraftari

محمد علی مرزا کی گرفتاری

انتہائی تعمق نظری گہرے انہماک اور بصیرت و بصارت کی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے میں نے انجینئر محمد علی مرزا کی وہ ویڈیو دیکھی جس کی بناء پر ان پر توہین رسالت یعنی دوسرے لفظوں میں آقائے نامدار ﷺ کی اہانت کا الزام لگایا گیا وڈیو کے تمام مندرجات کے عمیق مشاہدے کے بعد مجھے کوئی لفظ بھی ایسا نہ ملا جس پر توہین کا اطلاق کیا جاسکے انجنیئر صاحب نے اہل مسیح کے حوالے سے ان کی کتابوں کے مستند حوالوں کی ذیل میں فقط اتنی سی جسارت کی کہ وہ آقائے نامدار ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے بلکہ جناب عیسیٰؑ کے بعد آنے والے جھوٹے مدعیان نبوت میں آپ ﷺ کو گردانتے ہیں اس ذیل میں شاید جذبات کی رو میں بہہ کر عیسائیوں کے حوالے سے انہوں نے آقائے نامدار صلی علیہ وآلہ وسلّم کے لئے ایک نامناسب لفظ استعمال کیا لیکن وہ وہ اہل مسیح کے عقیدے کا بیان تھا اس پر توہین کا طلاق بعید از عقل و قیاس ہے۔۔ (یاد رہے کہ اس دور کے عیسائی حضور ﷺ کے جھوٹے نبی کے الزام سے مراجعت کر چکے ہیں اور وہ حضور ﷺ کو صرف اہل عرب کا پیغمبر مانتے ہیں انجنیئر صاحب کو شاید غلط فہمی ہوئی ہوگی)۔

آخر کیونکر ایک سادہ سی علمی گفتگو سے اہانت جیسے عمل قبیح کو کشید کرکے 295c کا پندا انجنیئر صاحب کے گلے میں ڈالا گیا ان عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے مولانا مناظر احسن گیلانی کا وہ واقعہ یاد اگیا جب انہوں نے اپنے استاد شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب سے پوچھا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے خطے کے مسلمان حضور ﷺ کی اہانت کا سن کر مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں مگر اپنی ذاتی زندگی میں اسوہ رسول پر عمل کرنے کے ہرگز روادار نہیں؟ نفسیاتِ انسانی کے اس حکیمِ حاذق نے جواباً عرض کیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضور ﷺ کی اہانت میں اپنی اہانت سمجھتے ہیں ان لوگوں نے چونکہ حضور ﷺ کو ایک طرح سے اپنی ملکیت میں لے رکھا ہے لہذا یہ حضور ﷺ کی اہانت کو اپنی انا پر کاری ضرب سمجھ کر لڑنے اور مرمٹنے پر تیار ہو جاتے ہیں یہ آشفتہ سری اور یہ دیوانگی عشق رسول ﷺ کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ اپنی انا کی تسکین کے لئے عمل میں آتی ہے۔۔

میں ذرا اس سے اگے بڑھ کر یہ لکھنے کی جسارت کروں گا کہ ہمارے ہاں صرف انا کی تسکین کے لئے یہ الزام نہیں لگتا بلکہ آپکی کسی کے ساتھ آن بن ہے کوئی جائداد کا مسئلہ ہے یا کوئی فکری اختلاف اُس ذاتی رنجش اور عناد کی بناء پر کسی شخص پر بھی توہین کا ٹھپہ لگائے ذرا سی تشہیر کا بندوست کرے پھر آرام سے بیٹھ کر تماشہ دیکھے لوگوں کا انبوہ کثیر پلک جھپکنے میں اس پر اپنی پوری قوت ایمانی کے ساتھ پِل پڑ کر یا تو اس کا سر تن سے جدا کردیں گا یا اگر خوش بختی سے حکومت بیچ بچاؤ کرکے اسے بچا کے لے جائے تو 295c کا بے رحم شکنجہ اس کے گلے میں فٹ ہونے کے لئے ہر دم تیار ہوتا ہے جس کی بنیاد پر کٹنی والی ایف آئی آر کے بعد نہ توبہ و انابت کی گنجائش اور نہ صفائی کا کوئی موقع بلکہ پورے ملک میں کوئی وکیل بھی کیس لینے کو تیار نہیں ہوتا بصورت دیگر اُس کی لاش بھی کسی مضافاتی علاقے سے مل جاتی ہے۔

لہذا ہر کوئی اپنی زندگی کی امان کے خاطر اس کیس کے آس پاس بھی گزرنے سے خوف کھاتا ہے اسی تناو خوف اور دہشت کی فضا میں اس شخص کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے پھر جوڈیشل پروسیجر کی تکمیل کا دورانیہ بھی عاشقان رسول پر گراں گزرتا ہے کہ ان کے ہاں تو اس شخص کی ایک ایک سانس اس دنیا میں عاشقان رسول کے لئے ذلت و عار کا باعث ہوتی ہے لہذا کوئی عاشق آگے بڑھ کر بھرے عدالت میں اس شخص کو گولیوں سے بھون دیتا ہے وہی جو چیخ چیخ کر آقائے نامدار ﷺ سے اپنی محبت کی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر عاشقان رسول کا بس اسی بات پر اصرار ہوتا ہے کہ نہیں تم ہوں ہمارے نبی کے گستاخ۔۔

ہے نہ عجیب بات کہ ایک شخص جو بار بار چیخ چیخ کر یہ کہے کہ میں حضور کا امتی اور آپ کا پیروکار ہوں میری فلاں بات کا مطلب وہ نہیں جو آپ بیان کرتے ہیں وہ اپنی بات کی وضاحت کرتا ہے اگر کہیں احتیاط کا دامن فرط جذبات سے چھوٹا ہے تو اس پر شرمندگی توبہ و انابت کا اظہار کرتا ہے لیکن ہمارے علماء المعروف محافظین ناموس رسالت کہتے ہیں کہ نہیں تم نے جان بوجھ کر بے حرمتی کی ہے اب موت کے خوف سے مراجعت پر اصرا کررہے ہوں بندہ پوچھے کہ ان علماء کے پاس آخر کونسا ذریعہ اور وجدانی علم ہے جو اس شخص کے دل میں اتر کر اس کی نیت کا حال تک جانتے ہیں اور دو ٹوک محرکات طے کرتے ہیں۔۔

یہاں ایک واقعہ پیش خدمت ہے کہ ایک غزوہ کے دوران اسامہ بن زید نے ایک شخص پر تلوار سونت کر اس کو مارنا چاہا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا مگر اسامہ بن زید نے اسے مار ڈالا بعد میں جب آقائے نامدار ﷺ کے سامنے اس واقعے کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا کلمہ پڑھنے کے بعد تم نے اسے قتل کیا؟ اسامہ بن زید نے جواب دیا وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے کلمہ پڑھ رہا تھا تو آقائے نامدار ﷺ نے ایک لافانی جملہ فرمایا۔۔

"هَلَّا شَقَقُتَ عَنُ قَلُبِهِ حَتَّى تَعُلَمَ أَقَالَهَا أَمُ لَا؟"

کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ دل سے کہہ رہا ہے یا نہیں؟ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بعث النبی ﷺ أسامة بن زيد إلى الحرقات من جهينة (حدیث: 4269)

اب آپ خود ذرا نہیں پورا سوچیے کہ خدا کے پیغمبر کے ساتھی کو ایک شخص کی نیت کا علم نہیں ہوسکتا تو یہ دو رکعت کے امام چہ دارد۔۔

انجنیئر صاحب کے جارحانہ طرز تکلم سے احقر بھی شدید نالاں ہے تہذیب و شائستگی ابلاغ دین کا لازمہ ہے مگر انجنیئر صاحب کے محاسن اور دین کے لئے ان کی خدمات بھی سر آنکھوں پر اگرچہ اس ویڈیو میں کچھ بے احتیاطی برتی گئی ہے مگر میری دانست میں ان کی سبک رفتار شہرت اور نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کا خوف ہی وہ بنیادی وجہ ہے جو ان کی اسیری اور توہین رسالت کے دشنام کا باعث بنا انتہائی افسوس کے ساتھ میں بلا جھجک یہ کہوں گا کہ ہمارے ہاں یہ افسوس ناک روایت رواج پاچکی ہے کہ جب دلیل کی دنیا میں علمی استطاعت جواب دے جائے تو مخالف پر توہین کا ٹپہ لگا کر اسے کھڈے لائن لگا دوں اور ہمیشہ کے لئے جان چھڑاؤ کیونکہ انجنیئر صاحب اس ملک کے دو بڑے مسالک کے خلاف بے رحم تنقید کرتا ہے اور اس ضمن میں سینکڑوں نوجوان اب ان علماء سے بدظن ہوچکے ہیں لہذا نفرت اور عناد کی ایک خلیج انجنیئر صاحب اور ان علماء کے مابین حائل ہوچکی ہے اور اسی نفرت کا غبار نکالنے کے لئے انجنیئر صاحب کے ایک جملے کو بنیاد بنا کر اسے توہین کا مجرم بنا دیا گیا ہے جو ایک خطرناک عمل اور ایسی آگ ہے جس کی لپیٹ میں سب آسکتے ہیں۔۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم اختلاف کے آداب سیکھے اور تعصبات سے نکل کر اپنی قائم کی ہوئی نظریات پر نظرثانی کا حو صلہ پیدا کرے جب آپ کی قائم کی ہوئی نظریات کے خلاف برہان قاطع آجائے تو دلیل پیش کرنے والے کا دشمن بننے اور اپنے قائم کیے ہوئے تعصبات پر اڑنے کے بجائے اپنے نظریات سے مراجعت کر لے اور اگر غلطی آشکار نہ ہوں تو محکم دلائل سے مخالف کے افکار کا ابطال کرے یوں کسی کی ذات پر حملہ آور ہوکر اس کو طعن تشنیع کا نشانہ بنانا اور اس کو راستے سے ہٹانے کے لئے حضور ﷺ کی ناموس جیسے مبارک مسئلے کو بنیاد بنانا انتہائی ناشائستہ اور اخلاق باختہ حرکت ہے۔

اس کے علاوہ انفرادی طور پر جب کسی کے بارے میں یہ بیہودہ بات سنے تو پوری تحقیق کے بعد اگر یہ اطمینان ہوں کہ وہ شخص اب بھی اہانت پر اصرار کررہا ہوں تو خود اقدام کے بجائے ریاست کو اس بات سے آگاہ کرے اور فساد فی الارض کے خدشے کے پیش نظر ایک مسلمان کی حیثیت سے فقط اس کی گرفتاری میں تعاون کرے خود لٹھ لے کر کسی کے خلاف آستینیں چڑھا کر نکلنا اور اسے موت کے گھاٹ اتارنا یکسر دین مبین کے صریح اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور اگر یہ ٹرینڈ چل پڑا تو یاد رہے کہ اس شر سے نہ کوئی مولوی محفوظ رہ سکیں گا نا عامی۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari