Imran Khan Ka Faiz (3)
عمران خان کا فیض (3)
جب جھرلو پھیرنے کے واسطے حالات موزوں ہوئے، جنرل فیض کی شبانہ روز انتھک محنت سے لاڈلے خان کے لئے میدان سیاست خوب سج دھج کے تیار ہوا، بڑے بڑے سیاسی حریف بھاری بھرکم کیسز تلے دب کر کچھ گھروں کچھ جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔ نواز شریف الیکشن سے عین پہلے نااہل کردیے گئے۔ تمام سرکردہ لیڈران عدالتوں کی راہداریوں میں فائلوں کا طومار ہاتھ میں پکڑے اپنی بیگناہی ثابت کرنے کے لئے دیوانہ وار دوڑ دھوپ میں مصروف ہوگئے۔ اسی گھٹن زدہ ماحول میں سن اٹھارہ کے الیکشن کا انعقاد ہوا۔
آر ٹی ایس الیکشن کے دن خراب ہوگیا، نتائج آنا بند ہوگئے، خوب ہیر پھیر ہوئی جیو جیسے موقر ادارے کے صحافیوں کو حکم ملا کہ پی ٹی آئی ارکان کی جیت کا اعلان بلا توقف کردیا جائے جس کے ان گنت گواہان موجود ہیں اور یوں لاڈلے خان نے نہ صرف مرکز میں حکومت بنائی بلکہ اقلیت کے باوجود پنجاب اسمبلی کے اراکین کی وفاداریاں خریدنے کے واسطے ترین کے جہاز نے اڑان بھرے اور جب لینڈنگ ہوئی تو پانسہ پلٹ چکا تھا۔ موسمی پرندوں نے اڑان بھر کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی اور عثمان بزدار جیسے بزرجمہر کو سب سے بڑا صوبہ سونپ دیا گیا یوں مسخروں کی حکومت کے پر آشوب دور کا آغاز ہوا۔
سولہ جون 2019 کو بروز اتوار منجانب آئی ایس پی آر ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر جنرل فیض کو اس عہدے پر تعینات کیا گیا۔ فقط آٹھ ماہ کے بعد یوں اچانک عاصم منیر کی ڈی جی کے عہدے سے برطرفی نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ یہ خبر مستند ترین شکل اختیار کرتے ہوئے زیر گردش رہی کہ جنرل عاصم نے خاتون اول محترمہ بشری بی بی معروف بہ پینکی پیرنی کے کرپشن کی نشاندہی کی تھی۔ وجہ چاہے جو بھی ہوں احسان مندی کا یہی تقاضا تھا کہ جنرل فیض کو یہ کلیدی عہدہ دیا جائے کہ وہی تو تھے جس نے سر دھڑ کی بازی لگا کر پوری سیاسی لیڈرشپ کو کھڈے لائن لگا کر لاڈلے کو مسند اقتدار پر بٹھا یا تھا۔
پاکستان جیسے ملک میں سب سے طاقتور متصور ہوتے اس عہدے پر متمکن ہونے کے بعد جنرل فیض کے فیضان نظر میں طاقت کا خمار بھی شامل ہوگیا اور لاڈلے خان سے وفاداری بشرطِ استواری کا خوب خوب لحاظ کرکے سب سے پہلے ان صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جو لاڈلے خان کی بچگانہ اور اوٹ پٹانگ پالیسیز پر نقد کرتے۔ لہذا مطیع اللہ جان کو سرِراہ اٹھوا کر اغوا کیا گیا، اسد طور کے گھر میں گھس کر اس کو خوب زدو کوب کیا گیا، ابصار عالم کو گولی مارکر زخمی کیا گیا اور ان سب نے آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھرایا۔
اس کے علاوہ نواز شریف شہباز شریف مریم نواز اور حمزہ شہباز جیلوں میں ٹھونس دیے گئے رانا ثناء اللہ کئی کلو ہیروئن برآمدگی کے مضحکہ خیز کیس میں پابند سلاسل ہوئے، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کو ایسے بھونڈے کیس میں اندر کیا گیا کہ جسے خود نیب بھی سمجھنے سے قاصر تھا اور عباسی صاحب بھرے عدالت میں ان کو کیس سمجھاتے۔ احسن اقبال حنیف عباسی سعد رفیق خواجہ آصف سمیت کئی سیاستدان راندہ درگاہ ٹھرے وہ جج (قاضی فائز عیسیٰ)جس نے فیض صاحب کی شان میں گستاخانہ فیصلہ تحریر کیا تھا اس کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ بیوی سمیت معزز جج کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا شوکت عزیز صدیقی جس نے فیض صاحب کے حکم عدولی کی جرات کی تھی اسے جبراً ریٹائر کرواکر پنشن سے محروم کردیا گیا الغرض چن چن کر بدلے لیے گئے اور گستاخانِ فیض کی خوب درگت بنائی گئی۔
تمام مخالفین کو سبق سکھانے کے بعد یہ منصوبہ بنا کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دیکر جنرل فیض کو سپہ سالاری کی دوڑ میں شامل کردیا جائیگا۔ باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض آرمی چیف بن جائیں گے اگلے الیکشن میں لاڈلے خان کو دو تہائی اکثریت سے جتواکر آئین کے حصے بخرے کرکے ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا جائیگا۔ اگلے دس سال تک لاڈلہ ملک کی سربراہی اور فیض افواج کی سربراہی کے مزے لوٹتے رہینگے اور موجیں ہی موجیں ہوگی۔
مگر پھر وقت نے پلٹا کھایا مکافات عمل کا قانون حرکت میں آیا اور ہوا کچھ یوں کہ لاڈلہ پرلے درجے کا نالائق نکلا جس نے ملکی معیشت کا ستیاناس کردیا۔ اسٹبلشمنٹ کو ملکی اور اپنی بقا کی فکر لاحق ہوگئی باجوہ نے دست شفقت اٹھا دیا چارو نا چار ردی کی ٹوکری میں پھینکے گئے۔ سیاستدانوں کے ترلے کرکے زمام اقتدار ان کو پکڑایا گیا لاڈلے خان کو لات مار کر نکالا گیا۔ اگلے آرمی چیف کے لئے جنرل عاصم منیر کی تقرری کی افواہیں گردش کرنے لگی تو فیض کو ایک انہونی خوف نے اپنے لپٹ میں لے لیا۔
باجوہ نے فیض کو متنبہ کردیا کہ اگر عاصم منیر آرمی چیف بن گئے تو آپ کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے، اسی خوف میں فیض اور لاڈلے خان نے ایوان صدر میں عاصم منیر کی تقرری روکنے کے لئے منصوبہ بند سازش تیار کی اور نومبر میں آزادی مارچ کا اعلان کردیا گیا، مگر شومئی قسمت کے فیض اب بے فیض ہوچکا تھا لاڈلے نے ٹانگوں پر جھوٹ موٹ کی گولیاں بھی کھائی پر لوگ مشتعل نہ ہوئے اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود جنرل عاصم آرمی چیف بن گئے فیض نے بے آبرو ہوکر ریٹائرمنٹ لے لی۔
مگر ریٹائر منٹ کے بعد بھی وہ سازشی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہے۔ نو مئی کو فرسٹریشن میں اندھے لاڈلے خان نے اپنی گرفتاری پر کارکنوں کو اتنا مشتعل کیا کہ وہ پاک فوج پر براہ راست حملہ آور ہوئے اور شہدا کی یادگاروں تک کی بے حرمتی کی گئی جس میں فیض کا عمل دخل بعید از قیاس نہ تھا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ فیض کی ریشہ دوانیوں کو مسلسل مانیٹر کررہی تھی اور بلاآخر پی ٹی آئی کی سیکرٹریٹ پر چھاپہ مارکر روف حسن کے لیپ ٹاپ سے ٹھوس ثبوتوں کے حصول کے بعد جنرل فیض کو گرفتار کرکے جنرل فیلڈ کورٹ مارشل کا آغاز کردیا گیا۔
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔۔
وہ فیض جس نے طاقت کے خمار اور لاڈلے خان کی محبت میں ایسے ظلم ڈھائے کہ مارشل لائی دور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور وہ نام نہاد خان جو رعونت آمیز لہجے میں پھنکار کر کہتا کہ میں سب سیاستدانوں کو نشان عبرت بناؤ گا آج یہ دونوں اپنی قسمت سے مایوس جیل کی کوٹھریوں میں پڑے خود عبرت کا نشان بن گئے ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔ بقول افتخار عارف۔۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔۔
ختم شد