Imran Khan Ka Faiz (2)
عمران خان کا فیض (2)
جنرل ظہیر الاسلام جس کا ذکر پچھلے بلاگ میں ہوچکا جو لندن پلان کا ماسٹر مائنڈ تھا اپنی تمام تر غیر معمولی تحرک آمیز پھرتیوں کے باوجود نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو سیاست سے آوٹ کرنے اور عمران خان کو اِن کرنے میں کامیاب نہ ہوا اور بہت بے آبرو ہوکر ریٹائر ہوگیا جس کے بعد جنرل رضوان ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے مگر جب 29 نومبر 2016 کو جنرل باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو اپنے فیملی فرینڈز جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی میں ڈی جی سی نامزد کر دیا یاد رہے کہ جنرل باجوہ کے سسر جنرل فیض کے سسر کے ہمدم دیرینہ تھے یوں اس سسرالی دوستی کی بنیاد پر جنرل فیض آئی ایس آئی میں آگئے اور ڈی جی کے بعد کلیدی عہدے پر براجمان ہوگئے۔
چونکہ جنرل فیض کو پراجیکٹ عمران کا مشن ورثے میں ملا تھا لہذا اس مقدس مقصد کے حصول کے لئے پانامہ کا ڈرامہ رچایا گیا جس میں ایک نہایت بھونڈے دلیل کی بنیاد پر نواز شریف کو وزارت اعظمی سے بے دخل کردیا گیا اور خفیہ اداروں پر مشتمل ایک جی آئی ٹی متشکل ہوئی جس میں من پسند افسران کو شامل کیا گیا اور واٹس ایپ کے ذریعے کچھ افسران کو ہٹاکر من پسند افسران کے احکامات ان دیکھے طاقتوروں کی جانب سے وارد ہوئے جو لیک ہوگئے جسے واٹس ایپ سکینڈل کہا گیا اور یوں اعجاز الاحسن نامی جج کو تاریخ میں پہلی بار مانیٹرنگ جج لگا گیا کہ جی آئی ٹی جلد سے جلد رپورٹ بنوائے کہ بغیر کسی توقف کے وزارت کی مالا لاڈلے کو پہنائی جائے۔ قصہ مختصر نواز شریف تا حیات نا اہل ہوئے پارٹی صدارت سے بھی برطرف کیے گئے مگر ہوا کچھ یوں کہ ایک گستاخ نے جہانگیر ترین اور عمران کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ جس آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر نواز شریف نا اہل ہوئے وہی جرم ان دو سے بھی سرزد ہوچکا ہے لہذا عدالت ان کو بھی نااہل کردے۔
اس زمانے میں منصف اعلی کی کرسی پر ایک شہرت کے مرض میں مبتلا ایک ثاقب نثار نامی شخص براجمان تھا لہذا جنرل فیض جنرل باجوہ کے ایما پر ثاقب نثار سے ملا اور ان کو حکم دیا کہ کچھ بھی کرکے لاڈلے خان کو بچایا جائے ثاقب نثار نے کہا دونوں کو بچانا میرے بس میں نہیں ہاں لاڈلے کو صداقت و امانت کے سند عطا کردوں گا لہذا جنرل فیض نے دو وکیلوں سے فیصلہ لکھوایا۔ نثار جی نے فقط پڑھ کے سنایا اور یوں فیص کی محبت میں اپنے ضمیر کا سودا کرکے لاڈلے خان کو صادق و امین ڈکلیئر کردیا اور ترین بیچارے کو نثار نے قربانی کا بکرا بناکر لاڈلے پر نثار کردیا اور لاڈلے کو اپنے محفوظ بانہوں میں سمو دیا۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ گوئی نہیں بلکہ جاوید چودھری کے 29 دسمبر 2022کے شائع شدہ کالم کا اقتباس ہے بقول جاوید چودھری یہ انکشافات جنرل باجوہ نے منکشف کیے عون چودھری نے مین سٹریم میڈیا پر جس کی تصدیق کی۔
پھر یوں ہوا کہ حکومت سے ختم نبوت جس کا چورن ملک میں ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے کے حوالے سے کچھ مس ہینڈلیینگ ہوگئی اب تو حسین موقع تھا کہ نون لیگ حکومت کو چلتا کیا جائے لہذا ٹی ایل پی نامی ایک شدت پسند مذہبی تنظیم لانچ کی گئی۔ اس طرح کی تنظیموں کی تشکیل میں ہماری اسٹبلشمنٹ کا کوئی ثانی نہیں یہ اور بات کہ بعد میں خود گلے پڑھ جاتی ہے۔ خیر ٹی ایل پی والے پوری آب و تاب کے ساتھ حمیت اسلامی کا کھوکھلا جذبہ لیے اسلام آباد آن دھمکے اور پورے ملک کو جام کردیا۔ بعد میں جنرل فیض نے معاہدہ کرکے دھرنہ ختم کروایا مگر اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج فائز عیسی نے نوٹس لیکر فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت شروع کی اور جو فیصلہ تحریر کیا اس میں ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوتوں کے پیش نظر یہ انکشاف کیا گیا کہ ٹی ایل پی والے بھی فیض کی ایما پر آئے تھے اور بعد میں فیض نے بند لفافوں میں ملفوف پیسے اہل دھرنہ میں تقسیم کرکے سب وفاداروں کو اپنے فیض سے خوب فیض یاب کیا۔
چلیے آگے چلتے ہیں جب نواز شریف کو احتساب عدالتوں سے سزائیں سنائی گئی تو نواز شریف کے خاندان نے سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ریویو پٹیشنز دائر کردی جس جج کے سامنے یہ کیسز لگنے تھے جنرل فیض اپنے فیض سمیت اس کے ہاں بھی پہنچ گئے اور ان سے درخواست کی کہ ہم نے دو سال محنت کرکے نواز شریف کو کھڈے لائن لگایا ہے لہذا ہماری یہ محنت برباد ہونے سے صرف آپ بچا سکتے ہیں۔ لہذا نواز شریف کو ہرگز ریلیف نہیں ملنا چاہئے اس جج میں شاید اصول پسندی اور ایمانداری کے کچھ جراثیم موجود تھے لہذا وہ ڈٹ گئے اور اس پر بس نہیں کہ فیض کو منہ پہ انکار کردیا بلکہ میڈیا پہ آکر فیض کے کرتوتوں کا قصہ سنایا اس جرات رندانہ پر شوکت عزیز صدیقی نامی اس جج کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔
اس کے علاوہ نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ اعتراف کررہے ہیں کہ نادیدہ قوتوں کے پریشر میں آکر اس نے نواز شریف کو سزا سنائی جس پر اب وہ نادم و شرمسار ہے بعد میں یہ جج صاحب کسی موذی مرض کا شکار ہوکر اچانک انتقال فرما گئے یا بزور اس جہان فانی سے کوچ کرنے پر مجبور کیے گئے اس بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
الغرض فیض پوری تندہی کے ساتھ مشنِ عمرانی میں ہمہ تن گوش تھے اور ہر مسئلے کو اپنی کمال مہارت سے ہینڈل کررہے تھے باقاعدہ جست لگا کر اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھے شاید فیض نے جنرل فیص کے بارے میں یہ شعر لکھا ہوں۔
فیض تھی راہ سربسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
فیض کی مزید کارستانیاں ملاحظہ ہوں اگلے بلاگ میں۔۔