Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Imran Khan Ka Faiz (1)

Imran Khan Ka Faiz (1)

عمران خان کا فیض (1)

وہ اکتا چکا تھا شطرنج کی بساط پر فقط دو مہرے بازی گر بن کر ایک عرصے سے کھیل کا پانسہ پلٹتے کبھی ایک اور کبھی دوسرا اپنی جیت کا اعلان کرتا بادشاہ گر بن کر چھا جاتا اور مختار کل بن کر مستقبل کی ممکنہ تصویر گری کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لیکر کبھی کبھی طاقت کے زعم میں وہ فیصلے بھی کر گزرتا جو اصلی بادشاہ گروں کے مزاج برہم پر گراں گزرتے۔

اس سارے منظر نامے نے اُسے شدید گھٹن میں مبتلا کردیا تھا وہ چاہتا تھا کہ ایک تیسرے کو اتنی طاقت دیکر میدان میں اتارا جائے جو اقتدار کی غلام گردشوں میں شامل ہوکر ان دو کی فیصلہ کن حثیت پر ایسی کاری ضرب لگائے کہ وہ کھیل میں فقط مردہ گھوڑے بن کر رہ جائے جنہیں بعد میں حرف مکرر کی طرح مٹایا جائے اور تیسرا اصلی بادشاہ گروں کے آشیر باد سے بساط پر چھا کر اپنے آقاؤں کا فرمان بردار غلام بن کر پوری قوت سے اقتدار کا واحد امیدوار بن جائے نہ کوئی حریف اور نہ کوئی مد مقابل بس وہ ہوں اقتدار کا ایوان ہوں اور آقاؤں کے ہر حکم کی بجا آوری ہوں۔

یہی وہ عزائم تھے جس کی تکمیل کے لئے ملکی سیاسی بساط پر ایک ایسے نیم پاگل اور نرگسیت میں خطرناک حد تک مبتلا فسطائی مزاج بندے کو متعارف کروایا گیا جس نے ملکی سیاسی معاشی اور سماجی نظام کا تیا پانچہ کرکے ہماری تہذیبی روایات میں گالم گلوچ اور دشنام و الزام کا وہ بیج بویا جس نے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال دیا جس نے نوجوان نسل کے اذہان کو کمال مہارت سے ہائی جیک کرکے ایک ایسا گروہ بد تمیزی تشکیل دیا جو مخالفین کی عزتوں کو نیلام کرنے ان پر غلاظت آمیز مغلظات بکنے کو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں جو بد تمیزی اور بد تہذیبی کی اس انتہا پر ہے کہ شیطان بھی دیکھ کر شرما جائے۔

خیر بات دوسری طرف نکل گئی اب آمدم بر سرِ مطلب یہ اس زمانے کی بات ہے جب شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو ان کے مزاج اقدس پر یہ کافی شاک گزرتا کہ ملکی سیاسی بساط پر صرف دو پارٹیوں یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا راج ہے لہذا ن دو کا یکے بعد دیگرے منتخب ہونا شجاع پاشا کو ہرگز گنوارا نہ تھا وجہ فقط یہ تھی کہ مزاج پر بھاری محسوس ہوتا کہ آخر کیوں بلڈی سویلین اب اتنے پھنے خان بن گئے کہ ان دو کے علاوہ کسی تیسرے کو منتخب ہی نہیں کرتے اور دو میں سے ایک وہ جو ہر وقت اصلی آقاوں کو آنکھیں بھی دکھاتا تھا پاشا صاحب کے اس تمنائے دیرینہ کی گواہی امریکی صحافی نے بھی دی۔ چنانچہ امریکی صحافی اسٹیو کول اپنی کتاب "ڈائریکٹوریٹ ایس"کے صفحہ نمبر 331پر لکھتے ہے کہ جنرل پاشا کا سیاست سے متعلق فلسفہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کی سوچ سے بالکل ہم آہنگ تھا اور جنرل پاشا سادہ الفاظ میں اسے بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے "میں ایک ایسے ملک میں رہنا چاہتا ہوں، جہاں میرے بچوں کو بھٹو اور شریف خاندان میں سے کسی ایک کا انتخاب نہ کرنا پڑے"۔

لہذا اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لئے تھوڑے نارمل زیادہ باولے شخص کو لانچ کیا گیا پرویز الہٰی نے کہا کہ ہم نے شکایت کی آپ ہمارے بندے تڑوا کر آخر کیوں پی ٹی آئی میں لا رہے ہیں جواب میں پاشا صاحب فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ مخاطب ہوئے چودھری صاحب ساڈا مشورہ ہے تسی بھی یہ پارٹی جوائن کرلوں کہ مستقبل تو ان کا ہے۔

بعد میں ریٹائر ہوکر اپنا یہ عظیم مشن اپنے پیش رو ظہیر الاسلام کو حوالہ کرگئے جس نے اس پراجیکٹ کی تکمیل میں اس وقت سر دھڑ کی بازی لگائی جب اس کے بجائے راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا گیا اب ذاتی رنجش نے مہمیز کا کام کیا اور یوں لندن میں ایجوئر روڈ پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں اس پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے سرجوڑ ایک سازش تیار کی گئی اور یوں طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ شروع ہوا۔

یاد رہے کہ اسی اپارٹمنٹ کے لفٹ میں جیو کے صحافی مرتضی علی نے اس سازشی ٹولے کو رنگے ہاتھوں ازراہ اتفاق پکڑا اور یوں ایک ہنگام برپا ہوگیا شجاع نواز نے اپنی کتاب The battle for Pakistan میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے حوالے سے لکھا کہ ظہیر الاسلام نواز حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کر چکے تھے جسے راحیل شریف نے ہونے نہ دیا اور یوں یہ صاحب بھی ریٹائر ہوگئے۔ اب انٹری ہوتی ہے اس جنرل فیض کی جس کے فیض بابرکت نے اس پراجیکٹ کو تکمیل سے ہم کنار کرایا فیض کے فیضان نظر نے کیا کیا گل کھلائے اس کی تفصیل ملاحظہ ہوں آئندہ بلاگ میں۔۔

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan