Hukumat Ki 3 Sala Karkardagi (2)
حکومت کی تین سالہ کارکردگی(2)
بطور تمہید میں بتاتا چلوں کہ عمران خان کی حکومت کا موازانہ پچھلے ادوار سے کرنا سخت نا انصافی ہوگی کیونکہ عمران خان نے الیکشن سے پہلے جو بھڑکیں ماری تھی اور جو بلند و بانگ اور زمینی حقائق سے یکسر عاری وعدے کیے تھے ان بھڑکوں کے تناظر میں عمران خان ایک اوتار نجات دہندہ پارسا پرہیزگار صاف ستھرا اور ہر قسم کی انسانی لغزش سے فروتر لیڈرہے پچھلے والے ٹھرے چور اچکے اناڑی اور ڈاکو ان کی اس محاسن اخلاق کے اس مجسم نمونے سے کیا موازانہ۔
لیکن پھر بھی کیا کرے موازانہ تو انہیں حکومتوں سے ہوگا لہذا یہ بے انصافی بادل ناخواستہ کرنی پڑھ رہی ہے عمران خان کی شان اقدس جن کی عظمت و رفعت کا اندازہ انسانی دماغ کے بس کا روگ نہیں جس کی عظمت افق کی وسعتوں اور رفعتوں میں محوپرواز ہے اس موازانے سے اگر ان کی شان والا صفات میں کوئی کمی کوتاہی ہوتی ہے تو بندۂ عاجز معافی کا خواستگار ہے۔
جولائی دوہزار اٹھارہ میں جب عمران خان سریرائے سلطنت ہوئے تو ملک کی جی ڈی پی گروتھ یعنی مجموعی قومی پیداور 5.8 کی شرح سے ترقی کررہی تھی جس کا مطلب ہے کہ ملکی مجموعی قوت خرید و فروخت بیرونی سرمایہ کاری کل برامدات اور مجموعی ٹیکسز میں پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد سے ترقی ہورہی تھی جیسے ہی یہ حکومت آئی تو اس ایماندار حکومت کے پہلے سال یہ بڑھوتری کم ہوکر ایک فیصد جبکہ دوسرے سال منفی پچاس ہوگئی شرح سود جو پہلے 6.3 فیصد تھی وہ یکدم بڑھاکر 13.25کردی گئی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھنے والے بڑے کارخانوں یعنی (large scale manufacturing industries) کی ترقی کی رفتار بھی منفی میں آگئی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر دھڑام سے نیچے آگری جس کا نتیجہ کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں نکلا۔
ہمارے پیارے خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب اوپر لیڈر چور ہوتا ہے تو مہنگائی بڑھتی ہے اب ذرا سنیئے چوروں کی حکومت جب گئی تو 2018 میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 3.93فیصد تھی امانت و صداقت کے علمبرداروں کی حکومت کے پہلے سال یہ شرح چھ فیصد جبکہ دوہزار بیس میں دس فیصد تک پہنچ گئی جس نے عوام کی معاشی حالت کا تیاپانچہ کردیا۔
زندگی کے واسطے ناگزیر و نہایت ضروری ٹھری اشیائے خوردنی یعنی آٹا گھی چینی اور سبزیوں میں اضافے کو (food inflation rate)کہتے ہیں جس میں اضافہ عوام کو بری طرح متاثر کرتا ہے اس میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا 2018 میں جس کی شرح چھ فیصد کے لگ بھگ تھی جو جنوری 2020 میں 23فیصد تک پہنچ گئی جو خطے میں سب سے زیادہ شرح تھی کرائے کے ترجمانوں نے ملبہ کورونا پہ ڈالنے کی کوشش کی اور یہ شوشہ چھوڑا کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہوئی لیکن اگر اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش کے food inflation rate سے موازانہ کیا جائے تو جنوری دو ہزار بیس میں بنگلہ دیش میں یہ شرح پانچ فیصد جبکہ انڈیا میں تیرہ فیصد تھی جبکہ ہمارے ہاں تئیس فیصد تھی یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کی معیشت کورونا کی شدید لہر کی وجہ سے سخت دباؤ میں تھی ہمارے ہاں صورتحال اتنی بھی مخدوش نہ تھی لیکن پھر بھی وہاں مہنگائی کی شرح ہمارے ملک سے کافی کم تھی۔
ان اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد اس بات سے کوئی بصیرت سے پیدل ہی انکار کرسکتا ہے (یوتھیوں کے علاوہ) کہ اس حکومت کے آنے کے بعد مہنگائی بڑھی ہے ipsosکے سرویز بتارہے ہے کہ اس حکومت میں پچھتر فیصد پاکستانیوں کا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اگر مہنگائی بڑھی ہے تو کیا اپنے بنائے کلیے کے مطابق (کہ مہنگائی کا بڑھنا حکمران کے کرپشن کا لازمی نتیجہ ہے) عمران خان کو چور کہنے میں قوم حق بجانب نہیں؟ ؟
تجارتی اور فسکل خساروں قرضوں کی بھرمار کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں آٹا اور چینی کی مد میں پانچ سو پچاس ارب روپے ڈاکہ ڈالنے کی واردات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرانجام دینے والے باقی کارناموں کا ذکر اگلے بلاگ میں (جاری ہے)