Call Tracing, Shahbaz Hukumat Ki Awam Dushmani
کال ٹریسنگ، شہباز حکومت کی عوام دشمنی
جبری گمشدگیاں، ویگو ڈالے، جرآت رندانہ کے مجرمین کی بوری بند لاشیں، دھونس و دھمکی سے بھرے خطوط اور وحشت و اندیشے میں مبتلا کرنے والے گرجدار آوازوں پر مبنی فون کالز۔۔ کیا یہ ملک ہم نے اسلیئے بنایا تھا کیا یہ ہے قائد اور اقبال کا پاکستان۔۔ جس کے محافظ اپنے ہی شہریوں کو محصور کرکے ان کی زندگی اجیرن کردے۔ کیا ایک مخصوص ادارے پر تنقید اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی قیمت یہ قوم بوری بند لاشوں کی صورت میں ادا کرے۔
میں بارہا لکھ چکا کہ ریاست کے وجود کا جواز ہی اس بات میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کی جان مال اور آبرو کی محافظ ہو اور کسی بھی شہری کی جان مال اور آبرو کے خلاف اٹھنے والے ہر قدم کو آہنی ہاتھوں سے روکے اس کے بر خلاف جو ریاست اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو پوری کرنے میں ناکام ہوجائے تو دراصل وہ اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتی ہے پھر چاہے آپ جتنے بھی ہیجانی اور حب الوطنی سے بھر پور جذباتی اور طلسماتی فضا بنادے چاہے کتنے ہی طلاطم خیز نغمیں میڈیا پر چلائیں ریاست کی وفاداری کا دَم کسی نے نہیں بھرنا۔
مگر بقول شخصے یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے وہ ریاست تو ایک طرف جو اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو جائے یہاں تو ریاستی سرکردگی میں قوم کی چمڑی سے ٹیکسوں کی صورت پیسہ ادھیڑ کر نام نہاد ایجینسیوں کو پالا جاتا ہے اور پھر انہی کے ذریعے لوگوں کو تاریک راتوں میں قتل کرکے ان کی بوری بند لاشوں کو کسی بیابان کی نَظَر کیا جاتا ہے تو اب سوچنے کی بات ہے کہ ناکام ریاست تو ایک طرف اگر ایک ریاست اپنے ہی شہریوں کی زندگیوں کے درپے ہوں تو کیا اس ریاست کے لئے بھی زندہ باد کے نعرے لگائے جانے چاہئے؟ میری دانست میں حاشا و کّلا۔
اب حال ہی میں شہباز نامی وزیراعظم کی سرکردگی میں بننے والی ایک جعلی اور عوامی تائید سے قطعاً محروم ایک نا جائز حکومت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996کی شق 54 کے تحت ایک خفیہ ایجنسی کو جو پہلے ہی اپنے بدنام کردار کے لئے کافی مشہور و معروف ہے کو یہ قانونی اجازت دے دی کہ وہ کسی بھی شہری کی ذاتی ذندگی میں دخیل ہوکر کسی بھی شہری کے فون کالز ٹریس کرسکتی ہے اور ہمارے وزیر قانون نے بطور جواز یہ عجیب منطق پیش کیا کہ خفیہ ایجنسیوں کو یہ چھوٹ تو برطانیہ جیسی جمہوریت میں بھی حاصل ہے۔ اس نااہل کی خدمت میں عرض ہے کہ برطانیہ میں ان ایجنسیوں کے سربراہان کو باقاعدہ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد یہ حق دیاجاتا ہے اور عدالت میں یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ اقدام ملکی مفاد کے لئے ناگزیر ہے مگر یہاں تو بس وسیع تر ملکی مفاد کو دلیل بناکر اس خفیہ ایجنسی کو شترِ بے مُہار کی طرح آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ جس کو چاہے ٹریس کرکے ملک دشمنی کا ٹھپہ لگا کر کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے۔
خدارا میری اس گزارش کو اربابِ دست و کشاد قابل اعتنا سمجھے کہ اگر اسی طرح چلتا رہا اور فقط الزام کی بنیاد پر لوگوں کو تہہ تیغ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو نہ یہ ملک رہے گا نہ یہ ادارے اور نہ یہ حکومت یقین نہیں آتا تو زرا تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں کہ جبر کی ہر سیاہ رات کا اختتام قومی بغاوت کی صورت میں ہوا ہے۔ احمد فراز نے کیا خوب فرمایا۔۔
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جس کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔۔
یاد رہے کہ یہ سورج بغاوت اور انقلاب کا سورج ہوتا ہے جو انسانی خون سے مہمیز پاتاہے لہذا ہوش کے ناخن لے اور اس ملک کو خطروں کی ان بے رحم موجوں کے سپرد کرنے سے باز رہے خدا کے لئے۔۔