Bajaur Operation, Aik Almanak Pas Manzar (4)
باجوڑ آپریشن، ایک المناک پس منظر (4)

یہاں ذرا رکھ طالبان امریکہ اور طالبان پاکستان مخاصمت کی ذیل میں القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا تذکرہ میں واقعات کے اس تسلسل کو ایک لڑی میں پرونے کے واسطے ضروری خیال کرتا ہوں۔
اسامہ بن لادن یمنی بلڈر محمد لادن کے سترھویں بیٹے تھے کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں زیر تعلیم شیخ اسامہ کی ملاقات اپنے استاد اور اخوان المسلمین کی نظریات کے عالمی پرچارک شیخ عبداللہ یوسف عظام سے ہوئی ان کی صحبت شیخ اسامہ کے جذبہء جہاد کی برانگیختگی کا محرک بنی جب سویت فوج کے خلاف افغان جہاد میں امریکہ کود پڑا تو سی آئی اے چیف ولیم کیسی کی خواہش تھی کہ پوری اسلامی دنیا سے مجاہدین لا کر افغان جہاد میں جھونک دیے جائے اور یوں روس کے خلاف مزاحمت عالم اسلام کا مقصد اولین بن جائے اسی غرض سے پنتالیس ممالک سے پینتیس ہزار مجاہدین افغانستان لائے گئے۔۔
معروف صحافی احمد رشید کی کتاب The Taliban کے مطابق آئی ایس آئی کی خواہش تھی کہ اب کسی امیر عرب شہزادے کو ان غیر ملکی مجاہدین کی سربراہی کے لئے بھیجا جائے تاکہ یہ تاثر زائل ہوں کہ صرف غریب اور لاچار لوگوں کو جہاد کے لئے لایا جارہا ہے اس واسطے نظرِ انتخاب شیخ اسامہ بن لادن ٹھرے اور یوں وہ افغان جہاد کے لئے امریکی ایماء پر سعودی حکومت کی طرف سے پاکستان بھیجے گئے۔
جب سویت یونین کو شکست ہوئی تو افغان مجاہدین کی آپسی چپقلش سے تنگ آکر اسامہ دوبارہ سعودی عرب چلے گئے۔
اسی اثناء میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن نے سعودی شاہی خاندان کو مشورہ دیا کہ اپنی سیکیورٹی کے لئے امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے افغان مجاہدین سے مدد لی جائے شاہ فہد جس کے لئے تیار نہ ہوا اور یوں امریکی فوجی سعودی عرب کی حفاظت کے لئے آن پہنچے یہی مسئلہ اسامہ بن لادن اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان وجہ نزاع بنا پیہم اور شدید مخالفت کی پاداش میں اسامہ بن لادن ملک بدر ہوکر سوڈان چلے گئے اور امریکہ کے خلاف القاعدہ نامی تنظیم بنا کر جہادی سرگرمیاں شروع کردی شدید غیر ملکی دباؤ کے پیش نظر سوڈان سے بے دخلی کے بعد اسامہ بن لادن کو جلال آباد کے کمانڈر ملا یونس خالص نے پناہ دی پھر جب طالبان افغانستان پر قابض ہوگئے تو اسامہ بن لادن ان کے مہمان بن گئے۔
سات اگست 1998 کو تنزانیہ اور کینیا میں جب امریکی سفارتخانوں پر حملے ہوئے تو طالبان حکومت پر اسامہ بن لادن کے حوالگی کے لئے دباؤ بڑھنے لگا سعودی انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کے مطابق ملا عمر اسامہ بن لادن کی حوالگی کے لئے رضامند ہوگئے تھے مگر خوست اور جلال آباد پر امریکی کروز میزائلوں کے حملے نے ان کا یہ ارادہ تبدیل کردیا اور یوں افغان طالبان حکومت عالمی استعمار کی نظروں میں کھٹکنے لگا۔
اس تناو بھرے پس منظر میں پھر وہ عظیم واقعہ رونما ہوا جس نے تاریخ کا رخ موڑ کر اس خطے کو ایک وحشت ناک دلدل میں دھکیل دیا 11 ستمبر 2001 کو صبح پونے آٹھ بجے سے لیکر نو بج کر سینتیس منٹ کے دورانیے میں پرائیویٹ جہازوں نے امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور وزارت دفاع کی عمارتوں کو بری طرح نشانہ بنایا سی آئی اے نے الزام القاعدہ پر لگا دیا جس کے سربراہ افغانستان میں مقیم تھے اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود امریکہ میں موجود تھے امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل اور نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے سات مطالبات پر مشتمل ایک فہرست انہیں تھما دی امریکی سفیر ونڈی چیمبر لین نے یہ فہرست مشرف کے سامنے رکھ کر دو ٹوک جواب مانگا کہ آپ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں مشرف نے کہا come on windy alqaida couldn't have done this they don't have technology to do something like this مگر وہ اب اس موڈ میں تھے ہی نہیں لہذا اس نے پھر دو ٹوک جواب مانگا مشرف نے اپنی کابینہ سے مشاورت کے لئے وقت مانگا یاد رہے کہ اس فہرست میں القاعدہ اور طالبان سے مکمل لا تعلقی ملک کے اندر موجود طالبان کے حمایتی عناصر کو کچلنا اور پاکستانی فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کے لا محدود اختیارات کا حصول جیسے مطالبات شامل تھے۔
اس وقت چونکہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ایک طرم خان مطلق العنان ڈکٹیٹر تھے اگر چہ اپنے ملک میں بڑے پھنے خان بنے پھرتے تھے مگر امریکیوں کے سامنے لیٹ گئے اور ان کے ہر مطالبے کے سامنے آمنا و صدقنا کہہ کر امریکیوں کو بھی اس غیر معمولی فرمان برداری پر ورطہ حیرت میں ڈال دیا ذرا سنیے امریکی صحافی کی زبانی مشرف کی بزدلی کی کہانی امریکی صحافی Bob Woodward اپنی کتاب Bush at war میں لکھتے ہیں کہ ان مطالبات میں کچھ تو ایسے تھے جن پر امریکہ میں بھی عمل درآمد ممکن نہ تھا اور کولن پاول کا خیال تھا کہ ساتویں مطالبے (طالبان حکومت سے سفارتی تعلقات کا انقطاع) پر تو مشرف بگڑ جائیں گے مگر جب فون پر جواب مانگا گیا تو مشرف نے کہا یس سر۔۔
یہی وہ یس تھا جس نے افغانستان کی تباہی کے لئے پاکستان کو ہمیشہ کا مجرم بنا دیا اور طالبان جن کو پاکستانی وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اپنے بچے کہتے جن کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سے کرنل امام گلے لگ کر روئے جن کی فتوحات کے لئے پاکستان نے سر دھڑ کی بازی لگائی اس ایک یس نے ایک دہائی پر مشتمل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانگسل محنت پر پانی پھیر دیا اور یوں پاکستان، طالبان اور طالبان حمایت یافتہ گروہوں میں نفرت کی ایک دیوار حائل ہوگئی اسی فیصلے کا ردعمل تحریک طالبان پاکستان کی وجود پذیری کا محرک بنا جس کی تفصیل آئندہ کالم میں۔۔

