Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Bajaur Operation, Aik Almanak Pas Manzar (3)

Bajaur Operation, Aik Almanak Pas Manzar (3)

باجوڑ آپریشن، ایک المناک پس منظر (3)‎

سویت فوج کی ذلت آمیز شکست کے بعد سویت نواز افغان حکومت جو ڈاکٹر نجیب کی سرکردگی میں ہنوز تختِ کابل پر براجمان تھی کو تر نوالہ سمجھتے ہوئے سویت فوج کو ناکوں چنے چبوانے والے مجاہدین نے گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں پاکستانی آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کے تعاون سے جلال آباد کا محاصرہ کرلیا جس میں ڈاکٹر نجیب کی فوج نے مجاہدین کے چھکے چھڑوا دیے اور یوں ہزیمت و شکست کا داغ لیے مجاہدین پسپا ہوئے بقول جنرل کے ایم عارف یہ ائی آیس آئی کی بڑی ناکامی تھی۔۔

ڈاکٹر نجیب جن کو تر نوالہ سمجھا جارہا تھا وہ لوہے کا چنا ثابت ہوئے یوں مجاہدین کی پے درپے ناکامیوں کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر نجیب کے خلاف دوبارہ سویت طرز پر گوریلا جنگ شروع کروادی۔۔

ایک طرف گلبدین حکمتیار کے پے درپے حملوں اور شیر پنج شیر احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی کی سرکردگی میں کئی جہادی گروپس کی سوئے کابل پیش قدمی نے ڈاکٹر نجیب کو ہندوستان فرار ہونے پر مجبور کردیا مگر ائیرپورٹ پر رشید دوستم کے جنگجووں نے پیشگی قبضہ کرکے فرار کی یہ کوشش ناکام بنادی اور یوں ڈاکٹر نجیب نے اقوام متحدہ کی دفتر میں پناہ لے لی۔

ڈاکٹر مجیب کی کابل سے پسپائی کے بعد 24 اپریل 1992 کو پشاور میں افغان مجاہدین کے مابین شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پا گیا اکیاون رکنی بورڈ تشکیل دی گئی اور طے پایا کہ دو ماہ کی عبوری حکومت کے سربراہ صبغت اللہ مجددی ہونگے جس کے بعد لیڈر شپ کونسل قائم کی جائیگی جس کے سربراہی برہان الدین ربانی کریں گے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہوگا وزیراعظم حزب اسلامی کے گلبدین حکمتیار گروپ سے ہوگا ڈپٹی وزیراعظم اور وزارت داخلہ کا عہدہ اتحاد اسلامی افغانستان، مولوی یونس خالص کے حزب اسلامی کو تعلیم اور، نیشنل اسلامک فرنٹ کو وزارت خارجہ کا عہدہ ملے گا جبکہ عدلیہ حرکت انقلابِ اسلامی کے زیر انتظام ہوگی۔۔

یوں برہان الدین ربانی مجددی کے بعد افغان صدر بن گئے وزیر دفاع کا عہدہ احمد شاہ مسعود کو ملا مگر حزب اسلامی کے گلبدین حکمتیار نے بغاوت کردی کیونکہ وہ صدارت سے کم عہدہ لینے پر ہرگز تیار نہ تھے لیکن یاد رہے کہ ربانی حکومت صرف کابل تک محدود تھی جو حکمتیار کے مسلسل حملوں کی زد میں تھا جبکہ باقی علاقوں پر مختلف کمانڈر قابض تھے مغربی صوبے ہرات پر سردار اسماعیل شمال کے چھ صوبوں پر عبد الرشید دوستم جبکہ جنوب اور مشرق کے کچھ علاقوں پر حکمتیار کا تسلط قائم تھا۔۔

حصوں بخروں میں منقسم افغانستان نے عام افغان عوام میں بے چینی پیدا کردی تھی مسلسل حملوں ہر دو کمانڈرز کی آپسی چپقلش کے نتیجے میں جنگ و جدل اور عوام پر بے جا ٹیکسس اور بھاری بھرکم بھتوں کی وصولی نے افغان عوام کی زندگی محال کردی تھی اس گھٹن زدہ ماحول میں مدرسوں کے وہ طالب علم جو سویت مخالف جہاد میں حصہ لے چکے تھے انہوں نے قندھار کے ایک گاؤں میں مسجد کے پیش امام اور غیر معروف شخص ملا عمر کی قیادت میں افغان مجاہدین کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مدرسوں کے طالب علم مجاہدین اسلام کے خلاف صف آراء ہوئے افغان عوام نے بربریت کے اس گھٹا ٹوپ اندھیروں میں طالبان کو امید کی کرن سمجھ کر ان کا بھر پور ساتھ دیا اور یوں دسمبر 1994 میں قندھار پر قبضے کے بعد طالبان برق رفتاری سے پورے ملک اور آخر کار دسمبر 1996 میں کابل پر قابض ہوگئے۔

یہی وہ دور ہے جب ہمارے خطے کی گریڈ گیم میں طالبان کی انٹری ہوتی ہے اس وقت پاکستان میں بینظیر بھٹو سریرائے سلطنت پر براجمان تھی پاکستان نے طالبان حکومت کا خیر مقدم کیا اور افغان مجاہدین سے دست شفقت کھینچ کر طالبان کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں پاکستان افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کا خواہاں تھا افغانستان میں اپنے تجارتی روٹ کی حفاظت کے لئے ان کو ایک طاقتور محافظ کی ضرورت تھی جو طالبان کی صورت میں ان کو مل گیا وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے طالبان کے اعلی قیادت سے رابطے قائم کیے اس ضمن میں چونکہ طالبان زیادہ تر دیوبندی مکتبہ فکرکے ترجمان مدرسے اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تھے لہذا جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کی خدمات بھی حاصل کی گئی اور یوں ایک اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہونا شروع ہوگیا۔

طالبان کے تعاون کے بدلے پاکستان اور اس کے بعد سعودی عرب جیسے بڑے اسلامی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا اور یوں وہ مجاہدین جو پاکستان نے پال پوس کر جوان کیے تھے وہ حاشیوں میں دھکیل دیے گئے جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے خلاف ہوگئے ازبک اور تاجک لیڈر شپ (برہان الدین ربانی، رشید دوستم اور احمد شاہ مسعود) جن سے طالبان نے حکومت بزور قوت چھینی تھی وہ بھی طالبان کی حمایت پر پاکستان سے کافی ناراض ہوگئے۔۔

وہ کیا اسباب تھے جو تحریک طالبان پاکستان کی وجود پزیری کا باعث بنے طالبان اور پاکستان کی مخاصمت کیونکر شروع ہوئی؟ پاکستان نے طالبان حکومت کی بساط لپیٹنے میں امریکہ کا ساتھ کیوں دیا؟ اس کی روداد آئندہ کالم میں۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam