Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Bajaur Operation, Aik Almanak Pas Manzar (2)

Bajaur Operation, Aik Almanak Pas Manzar (2)

باجوڑ آپریشن، ایک المناک پس منظر (2)‎

باجوڑ آپریشن کے پس منظر کے ذیل میں اگرچہ میں فقط واقعات کے تسلسل کو اختصار سے بیان کر رہا ہوں مگر یہاں میں اس مشہورِ زمانہ جھوٹ پر کچھ تبصرہ کروں گا جو ایک خطرناک پروپیگنڈے کی صورت میں آجتک ہمارے ہاں مشہور و معروف ہے جس کو سند کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔

ہمارے ہاں اس زمانے میں اس بات کو حد درجہ شیوع حاصل ہوا کہ افغانستان بہانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے یہ بات جان بوجھ مشتہر کی گئی کہ سویت یونین کا ہدف گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرکے بحیرہ عرب پر قبضہ کرنا ہے جس کے دام میں لاکھوں محبین مذہب و پاکستان آگئے اور یوں امریکی ایماء پر سویت یونین کے خلاف لڑنے کے لئے افرادی قوت کی وافر مقدار کی دستیابی ممکن بنائی گئی۔

غیر جانبدار ہوکر ذرا تعمق نظری سے اس پس منظر میں جھانکنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ 27 اپریل 1978 کے سرخ انقلاب میں سردار داؤد کے قتل کے بعد نور محمد خان ترکئی انقلابی کونسل کے چیئرمین مقرر ہوئے مگر جلد ہی کئی وجوہات کے پیش نظر سویت انتظامیہ ان سے بد ظن ہوگئی افغان جہاد کے دوران آئی ایس آئی کے افغان بیورو کی سربراہی کرنے والے برگیڈیئر محمد یوسف اپنی کتاب The bear trap میں لکھتے ہے۔۔

کریملن میں ایک سازش تیار کی گئی کہ نور محمد خان ترکئی کو ہٹا کر وزیر خارجہ و دفاع حفیظ اللہ امین خود صدارت کا منصب سنبھالے مگر روسی خفیہ ادارے KGB کی مرضی اس میں شامل نہ تھی کیونکہ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں بطورِ طالبعلم وقت گزارنے والے حفیظ اللہ امین کے بارے میں ان کے شکوک تھے کہ اس کے CIA سے تعلقات ہے۔

مگر برزنیف اپنی بات پر اڑے رہے لہذا 16 ستمبر 1979 کو دوسرے انقلاب کے نتیجے میں نور محمد خان ترکئی کو ہٹا کر حفیظ اللہ امین انقلابی کونسل کے چیئرمین اور افغان صدر بنائے گئے مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا حفیظ اللہ امین نے افغانستان میں میں موجود سویت مشیروں کو واپس بلانے سویت انٹیلیجنس کی کاروائیوں کو محدود کرنے اور آزاد خارجہ پالیسی کی باتیں شروع کردی اُدھر ماسکو کو اطلاعات مل رہی تھی کہ حفیظ اللہ امین امریکی انتظامیہ سے پینگے بڑھا رہا ہے۔

افغانستان میں اسلام پسند زور پکڑ رہے تھے ایران میں اسلامی انقلاب اور پاکستان میں ضیاء مارشل لاء نے سویت یونین کو خطے میں کمیونزم کی بالادستی کے حوالے سے خوف میں مبتلا کر دیا تھا اس ساری صورتحال میں اگر افغانستان بھی حفیظ اللہ امین کی کوششوں سے امریکی کیمپ میں چلا جاتا تو اس خطے سے کمیونزم کی بساط ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی جاتی۔

امریکی مصنف ڈیوڈ ایس پنٹر اپنی کتاب The cold war کے صفحہ نمبر بانوے میں رقمطراز ہے: سویت حکام کو خوف تھا کہ افغانستان میں اپوزیشن کی کامیابی کی صورت میں مسلم شدت پسند اقتدار میں آسکتے ہیں جس سے خطے میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا اور ممکنہ طور پر سوویت یونین کی وسط ایشیائی ریاستوں میں حالات خراب ہوسکتے ہیں ایک اور پریشانی یہ تھی کہ حفیظ اللہ امین نے امریکی خفیہ اداروں سے روابط قائم کر رکھے تھے خدشہ تھا کہ کہیں انوار سادات کی طرح یوٹرن لیکر وہ افغانستان کو امریکی کیمپ میں نہ لے جائے اگر ایسا ہوا تو نہ صرف سویت یونین کو دھچکا لگے گا بلکہ افغانستان میں امریکی میزائل نصب ہو جائیں گے جن کی پہنچ وسط ایشیا اور سائیبیریا تک ہوگی۔

اس مخصوص پس منظر میں سویت فوج افغانستان میں داخل ہوگئی لہذا یہ ایک بہت بڑا تاریخی مغالطہ ہے کہ سویت فوج کا مقصد گرم پانیوں تک رسائی تھا یہ جھوٹ اس لئے خوب پال پوس کر پھیلایا گیا تاکہ امریکی استعمار کے اصل حریف سویت یونین کو اسلام پسندوں کے ہاتھوں تہہ تیغ کیا جائے اور اس جھوٹ کو پھیلانے میں ہماری ملٹری اسٹبلشمنٹ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جب سویت یونین کے حصے بخرے کرکے امریکہ نے اپنی مخاصمت نکال لی تو انہوں نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور ہاتھ جھاڑ کر چلتے بنے یہاں 17 اگست 1988 کو افغان جہاد کے ماسٹر مائنڈ جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبد الرحمان جہاز حادثے میں جاں بحق ہوئے اور افغانستان میں روس کے خلاف بر سر پیکار جہادی تنظیموں کے درمیان اقتدار کے حصول کے خاطر ایک خونریز خانہ جنگی کا آغاز ہوا جہادی کمانڈر چونکہ آئی ایس آئی کے زیر سایہ کافی توانا ہوچکے لہذا جس میں جتنی طاقت تھی اتنے ہی علاقے پر قابض ہوتے گئے اور یوں طوائف الملوکی کے ایک روح فرسا دور کا اغاز ہوا۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan