Bajaur Operation, Aik Almanak Pas Manzar (1)
باجوڑ آپریشن، ایک المناک پس منظر (1)

سن اُناسی کا سال اسلامی دنیا میں فیصلہ کن اور تادیر موثر سیاسی تبدیلیوں کا سال ہے۔ یہی وہ عام الحزن ہے جس میں جہیمان العتیبی نے ساتھیوں سمیت خانۂ کعبہ کا محاصرہ کرکے سعودی شاہی خاندان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لئے شاہی خاندان کو اپنی مذہبی اسٹبلشمنٹ کے تعاون کی اشد ضرورت تھی۔ اس تعاون کے حصول کی قیمت السعود خاندان نے شیخ عبد العزیز بن باز کے اس مطالبے کو مان کر ادا کی کہ سعودی سماج کو مذہبی خطوط پر ازسرنو متشکل کیا جائے۔
اس وقت چونکہ سعودی حکومت ایک بند گلی میں پھنسی ہوئی تھی جہیمان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مذہبی اسٹبلشمنٹ کے فتوے کے حصول کے بغیر یہ بغاوت کچلنا محال تھا لہذا حکومت نے عبد العزیز بن باز کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور بغاوت کی سرکوبی ہوگئی مگر مذہب کو بزور طاقت عوام پر ٹھونسنے کا ایک بدنما سلسلہ شروع ہوا۔ سعودی عرب چونکہ حرمین کی رکھوالی کی وجہ سے عالم اسلام کا لیڈر اور امام ہے لہذا پوری اسلامی دنیا میں مذہبی شدت پسند گروہوں نے اپنے پر تول لیے جس نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری اسلامی دنیا میں مذہبی جنونیت کو فروغ دیا۔ اسی مذہبی جذباتیت سے مزین فضا میں ایرانی انقلاب نے مذہبی شدت پسند قوتوں کو مہمیز دی اور اسی مذہبی جذبات کی برانگیختگی کو افغانستان پر سوویت یونین کے حملے نے ایک عملی میدان فراہم کی۔
جب دسمبر 1979 میں روسی کمانڈوز نے حفیظ اللہ امین کو موت کے گھاٹ اتار کر ببرک کارمل کو صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا تب نہ سویت انٹیلیجنس ایجنسی KGB اور نہ سویت صدر برزنیف کو یہ اندازہ تھا کہ یہ جنگ نو سال تک طول کھینچے گی مگر امریکہ چونکہ سویت یونین کو افغانستان میں گھیرنا چاہتا تھا لہذا وقت کی ستم ظریفی نے امریکہ جیسی سپر پاور اور مذہبی شدت پسند گروہوں کے مفادات کو یکجا کیا کیونکہ ان مذہبی افیون میں سرمست بے لگام شدت پسندوں کو اہل کفر کے سر قلم کرنے کے لئے ایک میدان چائیے تھا جو انہیں افغانستان کی صورت میں مل گیا اور امریکہ سوویت یونین کے طاقت کو توڑ کر ویت نام میں ہوئی بدترین شکست بدلہ لینا چاہتی تھی لہذا اسلام پسند اور امریکہ سویت یونین کے خلاف یک جان دو قالب ہوگئے۔
شومئی قسمت کہ اس وقت ہمارے ملک پر ایک مذہبی شدت پسند ڈکٹیٹر کی حکومت تھی لہذا وہ مجاہد اسلام کا ٹائٹل سینے پہ سجائے امریکی ایماء پر افغان جنگ میں کود پڑا اور یہاں کی نامور مذہبی سیاسی جماعتوں کی مکمل تعاون کے ساتھ سویت یونین کے خلاف متحارب گروپوں کی سرپرستی شروع کردی۔
با وثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ اس وقت کی پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ امریکی تعاون سے ہم افغانستان میں سویت یونین کو شکست دیکر نہ صرف امریکہ کا ڈالروں کے ملمع میں لپٹا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں بلکہ عالم اسلام میں موجزن تلاطم خیز جذبات کو ایک عملی میدان فراہم کرکے جذبہء جہاد کو تسکین بھی دے سکتے ہیں اور سویت یونین کی شکست کی صورت میں ہمارا پنّے خان سینے پہ جہاد کا تمغہ سجا کر عالم اسلام میں ایک عظیم مجاہد کے لقب سے موسوم ہوسکتا ہیں۔
لہذا جمی کارٹر انتظامیہ کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کردیا گیا مگر پاکستان پر اتنی مہربانیاں کرنے کو وہ ہرگز تیار نہ تھے جتنی توقع ضیاء انتظامیہ کو تھی مگر جلد ہی رونالڈ ریگن امریکی سنگھاسن صدارت پر براجمان ہوا اور تین بلین ڈالر امداد کی منظوری کے ساتھ ہی ضیاء انتظامیہ نے پورے جوش و خروش سے مجاہدین کی بھرتیاں شروع کردی۔
یہاں پر آئی ایس آئی کی سرپرستی میں جماعت اسلامی جیسی مذہبی تنظیموں کی مکمل تعاون کے ساتھ ٹریننگ سنٹر کھولے گئے اور نہ صرف پختون بلٹ بلکہ عالم عرب سے بھی مجاہدین کو لاکر یہاں ٹرینینگ دی جاتی تھی اور امریکی اسلحے سے لیس ہوکر یہ مجاہدین سرحد پار افغانستان میں روسیوں کے خلاف لڑتے تھے۔ یہاں کی مذہبی جماعتوں نے ایک ایسی فضا پیدا کی کہ گویا یہ کفر و اسلام کا جدید دنیا میں آخری اور فیصلہ کن معرکہ ہو، جس کے بعد یا تو اسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت ممکن ہوسکے گی اور یا کمیونزم اس پورے خطے کو لپیٹ میں لیکر مذہب کو بے دخل کردے گا۔ اسی مذہبی رومان سے بھر پور سراب میں کئی نوجوان اپنے خاندان اور ماں باپ کی مرضی کے خلاف جذبہء جہاد کے شوق سے موجزن ہوکر گھروں سے نکلے اور پھر کبھی واپس نہ آئے واپسی کا راستہ تکتے ان کے والدین یہ حسرت دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ان جہادی تنظیموں کو روسی افواج کے ساتھ مقابلے کے قابل بنانے کی غرض سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں انتہائی مضبوط اور منظم کیا گیا اور ان کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ دنیا کی عظیم اور پیشہ ور فوج کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے قابل ہو جائے یہی وہ تاریخ کی ہیبت ناک غلطی تھی جس نے مستقبل میں پاکستانی ریاست اور سماج کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔
افغان جہاد اپنی پوری آب وتاب اور گھن گرج کے ساتھ جاری رہا مجاہدین کے بتدریج منظم اور مضبوط ہوتے گروہوں نے سویت یونین کے افواج کو کافی زک پہنچایا تاریخ کے جبر کے شکار پختون قوم کی صدیوں کے جنگ و جدل میں پروان چڑھے مضبوط کندھوں نے امریکی سٹینگر میزائلوں سے سویت فضائیہ کی کمر توڑ دی اور یوں سویت فوج کو افغانستان چھوڑنا پڑا اور جب جنیوا معاہدے کی رو سے 15 فروری 1989 کو آخری روسی سپاہی دریائے آمو عبور کر رہا تھا تب تاریخ ایک نیا رخ لیکر ایک ایسے تاریک مستقبل کی تصویر گری کررہاتھا جو کشت و خون اور ظلم و جبر کے شب دیجور سے عبارت تھا۔۔
جاری ہے۔۔

