Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Atif Kazmi
  4. Michael Jackson

Michael Jackson

مائیکل جیکسن

آج ایک دوست نے تصویر بھیجی جس میں جامن کی پیٹی سے لیجنڈ گلوکار مائیکل جیکسن برآمد ہوتا نظر آیا تو مجھے سکول دور یاد آگیا۔

جون 2007 میں پی فور کمپیوٹر لیا تو سب سے پہلی جو سی ڈی خریدی وہ انگریزی گانوں کی تھی۔ ان دنوں پروفیسر وقار الحق صاحب ہزار ہا حیلوں بہانوں سے انگریزی ہمارے اندر گھیسڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ ہم ان کے کہنے کے مطابق سارا دن ڈکشنری کھول کر بیٹھے خالص پنجابی لہجے میں انگریزی کی ماں بہن ایک کرتے رہتے۔

میں ایک دن The oldman and sea کا انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کی پریکٹس کر رہا تھا جب وقار صاحب نے پوچھا کہ تم مائیکل جیکسن کو جانتے ہو؟ میں نے کہا "ہاں اس حد تک کہ اس نے سرجری کروا کر اپنی شکل بدل لی ہے اور ناچتا بہت اچھا ہے اور شاید اس پہ کسی بچے کے ساتھ زیادتی کا کیس ہوا تھا"۔

"عاطف زیادتی کو چھوڑو۔۔ وہ گاتا بھی بہت اچھا ہے کبھی سننا۔۔ "

بس پھر کیا تھا کہ میں نے سنگیت میوزک سینٹر چکوال سے مائیکل جیکسن کی سی ڈی خرید لی۔ مائیکل جیکسن کا جو گانا سب سے پہلے سنا وہ Don't stop till you get enough تھا۔ اسی سی ڈی میں بلیک اینڈ وائٹ، ریممبر دا ٹائم اور ان دا کلوزٹ وغیرہ جیسے کئی گانے شامل تھے لیکن نجانے کیوں مجھ پہ don't stop till you enough اثر کر گیا۔ مائیکل کے بعد میں برٹنی سپیئرز، میڈونا، شکیرا، شائن ورلڈ اور نجانے کتنے پرانے نئے سنگرز کو سننے لگا جن کے اب نام بھی یاد نہیں لیکن اس کے باوجود مائیکل کے سحر سے نہ نکل سکا۔ 2009 میں جب مائیکل جیکسن کا انتقال ہوا تو مجھے دلی رنج ہوا۔ اس دن میں نے مائیکل جیکسن پہ مخلتف آرٹیکلز پڑھے تو میں حیران رہ گیا کہ وہ کیسا شخص تھا۔

بہت سے لوگوں کے مطابق مائیکل جیکسن طویل عمر تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔ اسے اپنے کالے رنگ موٹی ناک سے نفرت تھی لہذا اس نے پلاسٹک سرجریز کروا کے اپنے چہرے کے سبھی خدوخال بدل دئیے اور رنگ بھی چٹا سفید کر لیا تھا۔ رنگ گورا ہوتے ہی اس نے خود کو مہان سمجھتے ہوئے پرانے دوستو اور رشتہ دارو سے بھی جان چھڑوا لی اور شاید اس نے کرائے پہ گورے رنگ کے والدین بھی حاصل کر لئے تھے۔ اسے شہرت کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے اپنے مجمسے بنوا کر کئی شہروں میں نصب کروائے۔

سانس رکنے سے موت نہ آ جائے اس کے لیے وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا، جراثیم سے بچنے کو وہ دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا، پرہیزی کھانا کھاتا بلا ضرورت لوگوں سے نہیں ملتا ملاتا تھا۔ مائیکل جیکسن ایک مدت تک پاپ موسیقی میں بلند مقام پہ رہا اور آج بھی اس کے پرستاروں میں کمی نہ ہے۔ وہ اکثر کہتا تھا "میں دنیا کا تنہا ترین انسان ہوں" لیکن میری ناقص عقل کے مطابق شاید اس تنہائی کی وجہ وہ خود ہی تھا۔ جب انسان خود کو تجربہ گاہ بنا لے، خالق کی دی شکل و صورت میں اتنی ترامیم کروا لے کہ دوائیوں کا بے دریغ استعمال کرنا پڑے، جب وہ نہایت محتاط اور محفوظ غیر معمولی زندگی گزارنا چاہے تو تنہائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔

عروج کو زوال ہے۔ آج آپ کسی اچھے عہدے پہ فائز ہو، چند لوگ آپ کو جانتے ہیں، آپ پہ عروج ہے تو اس قدر محتاط یا آدم بیزار نہ ہو جائیں کہ کسی سے ہاتھ ملانے سے بھی رہ جائیں۔ خود سے نکل کر باہر بھی دیکھتے رہا کریں، آپ کتنی بڑی پرسنالٹی بن جائیں مجھے نہیں لگتا کہ آپ مائیکل جیکسن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر ایک جانی مانی شخصیت کی فوٹو جامن کی پیٹی سے نکل سکتی ہے تو دھیان رہے آپ کے فوٹوز جوتوں کے ڈبوں سے بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

Check Also

Tabdeeli Ka Khof

By Sheraz Ishfaq