Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Atif Kazmi
  4. Khul Ke Jiyen

Khul Ke Jiyen

کھل کے جئیں

مرحوم خالد حسنین خالد صاحب چکوال کے معروف نعت خواں تھے، ایک بار کسی شادی پہ انہوں نے کسی گیت کے چند مصرعے پڑھے تو سب نے ہوٹنگ شروع کر دی کہ نعت خواں ہو کر گیت؟ موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کی بغیر شرٹ کے ایک سیلفی منظر عام پہ آئی تو لوگوں نے خوب تمسخر اڑایا تھا۔ ایک سکول ٹیچر شادی پہ ناچا تو عوام سر پیٹنے لگی کہ ہائے ہائے ٹیچر ہو کر شادی پہ ٹھمکے۔۔ یہاں اگر کوئی حافظ قرآن فٹ بال کھیلے، جم جوائن کرے یا شوخ رنگ کے کپڑے پہن لے تو لوگوں کی بک بک شروع ہو جاتی ہے۔

ہمارے ہاں کچھ لوگوں کی بڑی آنت میں بہت بڑا کیڑا ہے جو انہیں ٹِک کر بیٹھنے نہیں دیتا لہذا وہ گداگر سے لے کر بادشاہ تک کی ذاتی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔ دراصل ہم نے مختلف شخصیات کے ذہن میں مختلف امیجز بنا رکھے ہیں اور ہزار سال پرانے ان امیجز کا اطلاق اب ہم 2024 میں بھی کر رہے ہیں جو کہ ایک بیوقوفانہ طرزِ عمل ہے۔

میں نہایت دیانتداری سے اپنی مثال پیش کرتا ہوں، سوشل میڈیا کے دور سے پہلے میں جب اخبارات رسائل میں مختلف مصنفین کو پڑھتا تو خیالوں ہی خیالوں میں ان کا امیج بنا لیتا تھا کہ یہ کہانی سفید رنگ کی بڑی سی چادر اوڑھے، ہاتھ میں قلم اٹھائے سوبر سی خاتون نے لکھی ہوگی یا پھر موٹی موٹی عینک والے، کھانستے اور لرزتے ہاتھوں والے ادھیڑ عمر سوبر سے مرد نے۔۔ بعد میں سوشل میڈیا کا کا دور آیا تو میں نے دیکھا کہ جو بوسیدہ خاکے میں نے مصنفین کے بارے بنائے تھے وہ مکمل صحیح نہ تھے۔ تب معلوم ہوا کہ کہانیاں صرف بوڑھے نہیں لکھتے بلکہ یہ کام نوجوان مصنفین بھی بہت عمدہ کر رہے ہیں۔

میں نے پرتلپی ایپ پہ لکھنا شروع کیا تو ایک محترمہ نے انباکس میں میری عمر پوچھی اور پھر حیران رہ گئی کہ میں تو آپ کو بڑی عمر کا مرد سمجھ رہی تھی۔ میں نے مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ اگر مصنفین کی تصاویر سوشل میڈیا پہ نہ ہوں تو عام قاری آج بھی بالکل میری طرح سوچے کہ کہانی کار بوڑھا سا ہوتا ہے۔ رائٹر لباس سے لے کر انداز گفتگو تک اپنا خیال رکھتا ہے۔ ایک رائٹر کم گو ہوتا ہے، وہ عینک لگائے اچکن پہنے اور یا بغیر کنگھی کئیے اپنی سوچوں اور اپنی بنائی دنیا میں مگن رہتا ہے اور اپنی قوت تخیل کی بنیاد پہ دھڑا دھڑ کہانیاں لکھتا رہتا ہے وغیرہ۔

کچھ عرصہ قبل جب میں نے کاغذ کالے کرنے شروع کئے تو خود سے عہد کیا تھا کہ میں اپنے فن کو اپنی شخصیت پہ حاوی نہیں ہونے دوں گا۔ چوں کہ میں ایک عام سا انسان ہوں لہذا بالکل عام انسانوں کی طرح بات چیت کرونگا اور زندگی گزاروں گا۔ میں اس قدر سوبر نہیں بنوں گا کہ کبھی سگریٹ پیتے، ناچتے، گاتے، نہاتے اپنی سیلفی لگا دوں تو لوگوں کے دیدے پھٹ جائیں کہ رائٹر ہو کر ایسے کام کر رہا ہے۔

پس آپ کا کوئی بھی پروفیشن ہو۔ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس کی آپ کو خواہش ہے۔ اپنی شخصی آزادی کو لوگوں کی وجہ سے داؤ پہ نہ لگائیں۔

پیزا کھائیں، سگریٹ سلگائیں، پول میں نہائیں، جم خانے جائیں، لال شربت پئیں، کھل کے جئیں

Check Also

Mazeed Jhoot Boliye

By Rao Manzar Hayat