Humein Web Culture Darkar Hai
ہمیں ویب کلچر درکار ہے
ایک زمانہ تھا لوگ معلومات کیلئے ترستے تھے۔ دنیا میں مختلف جگہوں پر ہر طرح کے کھیل کھیلے جا رہے ہوتے تھے، کوئی جیت جاتا تھا اور کسی کا مقدر شکست بنتی تھی۔ مقابلے میں حصہ لینے والے کھلاڑی یا اس کا نظارہ کرنے والے شائقین جب اپنے علاقوں میں واپس جاتے تو مقامی تماشائیوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا جو ان کا منتظر رہتا۔ یہ ہجوم مختلف گروپس کی شکل میں مقابلے کے میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں یا عینی شاہدین کے پاس جاتا اور ان سے مقابلے کی پوری کہانی سنتا۔
تاریخ اور تہذیب نام ہی ارتقاء کے ہیں۔ یہ پھلتے پھولتے اور بدلتے رہتے ہیں اور یہ آئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے۔ کوئی سو، سوا سو سال قبل تاریخ نے ایک پلڑا کھایا اور کھیلوں کے مقابلوں کی خبریں اخبارات کا حصہ بننے لگیں۔ اخبارات روزناموں کی شکل میں آنے لگے اور لوگوں کی مقابلوں سے جڑا رہنے کی خواہش بڑھنے لگی۔
اخبار سے اگلی چیز ٹی وی تھا۔ ٹی وی کھیلوں کے مقابلے لائیو دکھانے لگا جس سے لمحے لمحے کی کوریج براہ راست ناظرین تک پہنچتی ہے۔
سوشل میڈیا پچھلے دس سال سے لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بنا ہے اور اس نے کمال کر دیا ہے۔ آپ فیس بک پر چلے جائیے، آپ کو ایک ہی میچ کی بے انتہا لائیو کوریج والی وڈیوز مل جائیں گی اور آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا کہ آپ کسے منتخب کر کے دیکھنا شروع کر دیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بنا اجازت اور بلا حقوق کوریج قانونی طور پر ٹھیک بھی ہے؟ تو جواب ہے نہیں۔ یہ بالکل غیر قانونی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر وڈیوز چند منٹس چلتی ہیں اور پھر بند ہو جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر غیر قانونی لائیو سٹریمنگ کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں، لیکن چند قانونی پیچیدگیاں فی الحال ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر لوگ غیر قانونی طریقے سے کما رہے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا سب سے بڑا ہدف زیادہ سے زیادہ یوزر فرینڈلی ہونا ہے۔ غیر قانونی لائیو سٹریمنگ جو کہ کسی نہ کسی طرح کاپی رائٹ کلیم سے بچ کر کی جاتی ہے زیادہ تر یوزر کیلئے بہترین نہیں ہوتی۔ اس میں زوم یا کٹ کر کے سکرین دکھائی جا رہی ہوتی ہے۔
اس طرح کی سٹریمنگ کو جو مرضی کہا جائے، اس کا ایک فائدہ یہ بہرحال کھیلوں کے متعلقہ بورڈز اور فرنچائزز کو ہوا ہے کہ اس سے وہ لوگ بھی میچز دیکھ لیتے ہیں جنہیں ٹی وی میسر نہیں یا جو قانونی طریقوں سے پیسہ خرچ کے ہاٹ سٹار وغیرہ کے پیکچز نہیں خرید سکتے۔ جب لوگ کھیل سے جڑتے ہیں تو سٹیڈیمز بھی بھرتے ہیں اور شرٹس بھی بکتی ہیں۔
میں نے اکثر کوشش کر کے دیکھی ہے کہ سوشل میڈیا کی لائیو سٹریمنگ کی بجائے کھیل کے متعلقہ بورڈز یا چینلز کی ویب سائٹس پر جا کر لائیو میچ دیکھا جائے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہمارے قومی ٹی وی چینل کی بھی لائیو سٹریمنگ ویب پر نہیں آتی۔ اسی طرح جیو سوپر اور ٹین سپورٹس بھی ویب ہر ایکٹو نہیں ہیں۔ کئی ممالک میں اب ویب پر چینلز دیکھنے کا کلچر آ چکا ہے۔ دنیا کی ہر شے چھ انچ کے فون کے اندر دستیاب ہے۔ ہمیں بھی اب بس اس دوڑ کا حصہ بننا ہے۔ اگر ہمارے چینلز بھی ویب پر لائیو سٹریمنگ دکھائیں تو لوگوں کا رش اس سٹریمنگ سے کم ہو جائے گا جو غیر قانونی طریقے سے سوشل میڈیا پر کی جا رہی ہوتی ہے۔