Labon Per Aake Kulfi Ho Gaye Ashaar Sardi Mein
لبوں پہ آکے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں
مخلوقِ خدا سمجھتی ہے اسلام آباد حسین شہر اور دل نشین علاقہ ہے۔ خدا کی مخلوق تو ہم بھی تھے بس ان خیالات کے حامی نہ تھے۔ ہمیں ایک زمانے میں تربیلہ وینس لگتا۔ اور اپنا آپ وہ ایلس جو تربیلہ کے ونڈر لینڈ میں کھو جانا چاہتی ہے۔
گھر والوں سے درخواست گزاری کہ ہمیں اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ یہ سمرن چار روزہ زندگی کے دو دن اپنی مرضی کے گزارنا چاہتی ہے۔ گھر والوں کا بس چلتا تو وہ ہمیں تربیلہ کی جھیل میں دھکا دے کے آتے لیکن ہم ان کے ارادے بھانپ گئے تھے اسلیے جھیل کنارے ہمیشہ اکیلے ہی گئے۔
جو بیبیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ہماری اماں نے ہمیں تربیلہ کے سی ایم ایچ کے کسی وارڈ میں جنم دیا تھا، انکے خیالات سراسر باطل اور جھوٹ پہ مبنی ہیں۔
یقین کیجیے ہم راولپنڈی شہر میں کسی ناگہانی خوشی کی طرح ٹپکے تھے۔ ہماری پیدائش پہ ڈھول تاشوں کا اہتمام بھی ہوا تھا اور محلے کے طول و عرض میں بہترین مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں۔
ان مٹھائیوں کی مٹھاس اہل خاندان کی زبان پہ تمام عمر رہی اور اسی مٹھاس کے ڈر سے ہم نے پھپھیوں کے شہر سے کوچ کرنے کا سوچا۔۔ کیا خبر کچھ عرصہ مزید پاس رہنے پہ ذیابیطیس کے شکار ہو جاتے۔
تربیلہ آنے کے لیے قربانی دی ہماری اماں نے اور چھوٹے کو ہم کان سے پکڑ کے لے آئے۔
گھر جو ملا اسے آپ ہاسٹل ہی سمجھیے۔ جہاں ہمہ وقت ہماری سہیلیوں کا ڈیرا رہتا۔ ایک جاتی دوسری آتی اور زندگی سبک رفتاری سے رواں دواں تھی۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا برا وقت پوچھ کر نہیں آتا۔۔ یہاں بھی پوچھ کر نہیں آیا ہم نے خود بلوایا۔۔
بچپنے کی ایک عدد منحوس ترین سہیلی جو ہماری واحد اکلوتی دوست ہیں اور پچھلے چھبیس سال سے لگاتار ہمیں برداشت کیے چلے جارہی ہیں۔
یہ محترمہ اس اعلیٰ پائے کی نازک مزاج اور سست الوجود و کاہل الوجود واقع ہوئی ہیں کہ ایسی دوسری ہستی آپکو چراغ لے کے ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہماری زندگی کے وہ تمام بدلے ان سے گن گن کے ایسے لیے کہ انھیں تربیلہ ہمارے رحم و کرم پہ لا پھینکا۔ یہیں سے کہانی میں ٹوئسٹ کا آغاز ہوتا ہے۔
ایک بڑا سا گھر۔ جہاں ہمارے علاوہ یقیناً جن بھوت اور چڑیلیں رہتی ہونگی۔
اس گھر کی سب سے اعلیٰ ترین صفت یہ ہے کہ اگر گھر کے پی میں واقع ہے تو گھر کا غسل خانہ کشمیر میں واقع ہے۔
اس کشمیر کے راستے میں ایک عدد اجڑا ہوا باغیچہ ایک جاپانی پھل کا ٹنڈ منڈ درخت لیموں کا پیڑ اور خوبانی کا پتے گراتا درخت شان سے ایستادہ ہیں۔
دسمبر کے اس حسین مہینے میں گھر کی ٹھنڈک بالکل ایسی ہے جیسے یہ گھر سطح آب پہ بنایا گیا ہو۔ گھر کے پاس موجود جھیل کی وجہ سے آپ ہمہ وقت ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔
یہ لطف اس وقت دو آتشہ ہوتا ہے، جب محترمہ کو کمرے میں موجود چار رضائیوں والے بستر سے نکل کر کشمیر فتح کرنے جانا ہوتا ہے۔ پہلے وہ ہماری شان میں ایک شاندار قصیدہ پڑھتی ہیں۔ پھر بکتی جھکتی ہر شاخ پہ الو تلاشتی کشمیر جا پہنچتی ہیں۔ وہاں سے شکست یافتہ واپس لوٹ کر آتی ہیں اور اسکے بعد پھر ہمیں قصیدہ مہریہ سنا کے اگلے دس منٹ تک دم سادھ لیتی ہیں۔
اس تمام کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ وہ قالین ہیں۔ جو ہم نے گرمیوں میں کمرے سے اٹھوا دیے تھے اور سردیوں میں اعلیٰ درجے کی سستی کے سبب نہیں بچھائے۔ کمرے میں بچھی وہ شیٹس جو گرمیوں میں ٹھنڈک و فرحت کا احساس دلاتی ہیں، سردیوں میں بھی بالکل ویسے ہی ٹھنڈک کے احساس سے دو چار کرتی ہیں۔
ہماری پردادی ترک تھیں اور استنبول شہر کی رہائشی تھیں۔ ہماری والدہ بتاتی ہیں کہ گھر کے اندر جوتے لانے کو سخت معیوب خیال کیا کرتی تھیں۔
ہردادی کی یہی روح اس عاجز مسکین حقیر پر تقصیر کے اندر بھی سمائی ہوئی تھی۔ اب ذرا سہیلی کا درد ملاحظہ کیhttps: //dailyurducolumns۔ com/Admin/Columns/datActions#جیے۔ برآمدے کی گرل کے آگے جوتے اتار کے بحر منجمد شمالی میں پاؤں رکھتے ہی وہ ایسی جامنی ہو جایا کرتیں کہ ہم سوچتے کالی گوری تو سنی تھی یہ جامن کے رنگ کی عورت جانے کہاں سے آن ٹپکی۔
ہم نے سوچا اس پھٹکار ماری رنگت کے ساتھ لڑکی اس جنم میں تو شادی شدہ ہر گز نہیں ہو سکتی اسلیے بہتر یہ ہے کہ اسے گھر کے اندر پہننے والے جوتے دلا دیے جائیں۔ جامنی سے کالی ہو جائے گی کسی اسٹیل کے جھانویں کا کاروبار کرنے والے کو تھما دیں گے کہ بھیا گھر لے جاؤ روز جھانویں سے رگڑا کرنا ایک دن اندر سے قلعی کی طرح چمکتی ہوئی نکل آئے گی۔۔ نہ نکلی تو جھیل میں پھینک آنا۔۔ بھلا کالی عورت کو زندہ رہنے کا کیا حق۔۔
خیر اب جوتے تو لے آئے لیکن محترمہ کی ہائے وائے میں شدید اضافہ ہوگیا۔۔
ایک تو میں کشمیر جاؤں دوسرے دو دو قدم چل کے جوتے بدلوں۔۔ یہ کمرے کے جوتے وہ برآمدے کے جوتے یہ صحن کے یہ باتھ روم کے اور یہ گھر سے باہر جانے کے۔۔
کن لوگوں کی اولاد ہو تم۔۔ فوں فاں کرکے روزاستفسار ہونے لگا۔۔
اب اپنے ذاتی والدین کے لیے ان شبدوں پہ ہم نے وہ انتقام لیا کہ رہتی دنیا تک چنگیز خان و ہلاکو خان کی نسلیں یاد رکھیں گی کہ انکے باپ دادا کو یہ نادر ونایاب خیال کیوں نہ آیا تھا۔
یہاں ہمیں کشمیر جانے کی ضرورت ہوتی انکو چھیڑ دیتے۔۔ آپ نے جانا ہے۔۔ نہ بھی جانا ہوتا خواہ مخواہ وہم ہونے لگتا جانا ہی ہوگا۔۔
ہم مبارک باد کے مستحق ہیں فقط پندرہ روز میں اس عورت کا وزن پانچ کلو کم کروایا ہے۔
ویٹ مشین پہ کھڑے ہو کے مارے خوشی کے محترمہ کی باچھیں چر گئیں۔ بولی پورے پانچ کلو کم ہوگیا۔۔
ہم نے کہا کھاؤ اللہ کی قسم۔۔
کہتی ہیں اللہ کی کیوں کھاؤں۔۔ لو کھائی امام حسین کی قسم۔
ہائیں یہ کیسی قسم ہوئی۔۔
ایسی ہی ہوئی۔۔ ہمارے امام ہماری مرضی۔۔
جوش جذبات میں بھول گئی ہیں کہ ابھی سردی کے چار ماہ باقی ہیں اور وہ راتیں بھی آنی ہیں جب رم جھم پھوار پڑے گی اور صحن میں اک پانی کا دریا ہوگا اور۔۔