Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sumaira Imam
  4. Alwida

Alwida

الوداع

کم بخت دیہاتیوں کے زندگی کے دکھ بڑے ہی الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ آپ بھی اگر نہیں سمجھے تو دیوانے کی راگ سمجھ کے درگزر کر دیجیے گا۔

وہ جھرنے جھیلیں پہاڑ دریا سب چھوڑ کے آتے ہیں۔ خالی ہاتھ خالی دل لیے دربدر پھرتے ہیں۔ شہری کبھی انکا مذاق اڑاتے ہیں کبھی انکی سادگی پہ ہنستے ہیں کبھی انھیں حقیر سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم برداشت کرتے ہیں۔ ضبط کرتے ہیں، کیونکہ اپنی بقاء کی جنگ لڑنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں نہ شہریوں کے لیے نہ ہی دیہاتیوں کے لیے۔ لیکن انسان سبھی بڑے ظالم ہوتے ہیں، دیہاتی شہر والوں کو اپنے ارمانوں کا قاتل جانتے ہیں شہری دیہاتیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ بس چار سال سے یہی محسوس ہوتا ہے، جیسے زندگی نفرت کا نام ہو۔ کبھی درد سے نیلے پڑ گئے کبھی برداشت کر لیا، کبھی سن لی کبھی تڑخ گئے تو سنا دی۔

ہجرتیں اچھی بھی ہوتی ہیں بری بھی۔ شہرِ کراچی نے بڑے دکھ دیے۔ یہاں شاید دنیا کے سب سے اچھے انسان بستے ہونگے لیکن وہ اچھے لوگ ہمارے حصے میں کم ہی آئے۔

روکھے بے مروت بدلحاظ بد زبان اور بد اخلاقوں نے کئی بار دل توڑا۔ ہم سے کوئی نفرت کرے ہم سہم جاتے ہیں۔ ڈر کے کسی کونے میں چھپ جاتے ہیں۔ زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ اور آنسو اندر ہی اندر گر گر کے زخمی کرتے رہتے ہیں۔

کیا ہوا دیہاتی ہیں، لیکن ہیں تو اللہ میاں کی مخلوق ہی نا۔ حقیر ہیں کسی پہاڑ سے آئے ہونگے، لیکن ظالمو بڑی جدوجہد کی ہے ساری عمر۔ اپنے اندر کے وحشی کو تہذیب سکھانے میں نسلیں لگا دیں ہم نے۔ ذرا سا لحاظ ہی کر لو۔ کبھی ہمارے قدموں کے چھالے اور دل کے زخم بھی دیکھ لو۔

قسم خدا کی ہزار دکھ سہے لیکن صبر کیا ضبط کیا کبھی آہ و فغاں نہ کی۔

لیکن آج تو دل چھلنی ہے۔ برداشت ختم ہے۔ مانو کوئی مرگیا۔ مانو بے اولاد ہوگئے صحیح معنوں میں۔

انتہائی مشکل سے چند گملے اٹھا کے تیسری منزل پہ چڑھا کے لائے تھے۔ مٹی ڈال کے کھاد ڈال کے ایک ایک پتے کو سینچا تھا۔ ان سے باتیں کرتے ان سے دکھ درد کہتے انھیں بتلاتے سنو اس شہر میں ہم اکیلے ہیں۔ جی گھبرائے تو بس تم ہی دوست ہو تم ہی ساتھی ہو۔ تم سے بات کرتے ہیں۔ تم سے ملنے آتے ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ کے جھومتے۔ ہمیں انھیں دیکھ کے کھلکھلاتے۔

کسی نے پتا نوچ دیا ہم دکھی ہوگئے۔ ان سے معافی مانگتے کہ پیارے پودوں میں تمھاری ماں ہوں ماں اولاد کا دکھ نہیں دیتی بس میرے بچو یہ دنیا ہے کہیں کہیں ماں بھی بے بس ہوتی ہے۔

اماں یاد آتی تو ان سے کہتے ابا یاد آتے تو انھیں بتاتے دیکھو یہ جو تمھاری ماں یہاں لاوارثوں کی طرح پڑی رہتی ہیں یہ اپنے ابا کی بڑی ہی لاڈلی تھیں۔ بس وقت کا پھیر ہے کئی کے دن بڑے کئی کی راتیں۔

پودے ہمارے بچے تھے پودے ہمارے بہن بھائی تھے۔ پودے ہمارے گھر والے تھے۔

آپکے گھر والوں کو کوئی نکال دے کوئی بےدردی سے پیش آئے کیسا محسوس کریں گے؟

بس ویسا ہی درد ہورہا ہے۔ میرا چھوٹا سا ایک بیری کا پودا تھا سنت کے طور پہ لگایا تھا کہ اللہ کے نبی نے بیری کاٹنے سے منع کیا ہے۔ بس بیری مجھے پیاری لگتی۔ سدرة المنتہا والی بیری کی یاد دلاتی۔۔

لیکن سب لٹ گیا۔۔ میرے پودے ہی برداشت نہ ہوئے۔ آپ شاید اسے غم نہ سمجھیں، لیکن میرا دل کٹ کٹ کے گرتا ہے میرے آنسو خشک نہیں ہوتے۔ مجھے اپنے کھیت کھلیان پتھر شجر حجر یاد آتے ہیں۔

میرا دل اداس ہے۔ آپ بے شک یہ تحریر نہ پڑھیں۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi