Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sumaira Anwar
  4. Doran e Hamal Warzish Ki Ahmiyat

Doran e Hamal Warzish Ki Ahmiyat

دوران حمل ورزش کی اہمیت

آغا خان یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں 86 فی صد خواتین دوران حمل اپنا زیادہ تر وقت چہل قدمی یا ورزش کی بجائے ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتی ہیں۔

ادارے کی جانب سے وائس آف امریکہ کو دی جانے والی معلومات کے مطابق اس تحقیق کے لیے 450 خواتین کے طرزِ زندگی کا مشاہدہ کیا گیا جس کی روشنی میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق:

پاکستان میں ہر تین حاملہ خواتین میں سے ایک سے زائد عورت دورانِ حمل جسمانی طور پر متحرک رہی جب کہ ان میں سے صرف تین فی صد خواتین ایسی تھیں جنھوں نے دورانِ حمل ورزش کی یا دن بھر میں کم از کم آدھا گھنٹہ مختلف کھیلوں کے لیے مختص کیا۔ مجموعی طور پر ان خواتین کی تعداد 36 فی صد بنتی ہے 86 فی صد خواتین نے بتایا کہ ان کا زیادہ وقت یا تو ٹی وی دیکھنے میں گزرتا ہے یا مستقل آرام میں۔

بے تحاشا ادویات کا استعمال انھیں پریشان کیے رکھتا ہے۔ کراچی کے آغا خان ہاسپٹل اینڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے دوران بتایا گیا کہ "خواتین کی بہت بڑی تعداد دورانِ حمل ورزش سے ہونے والے فوائد سے بالکل نا واقف ہے۔ ان کے ذہنوں میں ورزش کے بارے میں یہ انتہائی غلط تصور بیٹھا ہوا ہے کہ ورزش کرنے سے حمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے"۔

ان کا کہنا ہے کہ دوران تحقیق جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق حاملہ خواتین کی بہت کم تعداد اس بات سے واقف ہے کہ کس طرح جسمانی سرگرمی ماں اور بچے دونوں کی صحت اور بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق عمومی طور پر حاملہ خواتین کی اہم جسمانی سرگرمیوں میں گھر کے کام کاج اور گھر میں موجود معمر افراد کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ تمام جسمانی سرگرمیاں اہم ہیں تاہم حاملہ خواتین کو ورزش کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہیے اور انہیں ورزش کے لیے علاحدہ سے وقت نکالنا چاہیے۔ کچھ خواتین کو گیس کا شدید مسئلہ ہو جاتا ہے۔

اکڑا ہوا جسم سانس لینے میں بھی دقت محسوس کرتا ہے وہ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ ناشتے کے بعد کچھ دیر کی چہل قدمی بھی نہیں کی جاتی اور بستر پر لیٹ جاتی ہیں اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ناشتے اور کھانے کے بعد دو گھنٹے تک بستر پر نہ لیٹا جائے بل کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے چاہے وہ بستر درست کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ حاملہ خواتین کو چاہیے کہ ناشتے کے بعد صفائی ستھرائی کا کام ضرور کریں تاکہ جسمانی اعضاء حرکت میں رہیں اور ان کا جسم چاق و چوبند رہے۔ عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق حاملہ خواتین کے لیے ضروری ہے وہ روزانہ تیس منٹ کی ورزش کریں۔ کچھ خواتین یہ سوچ رہی ہوں گی کہ ورزش کس قسم کی ہونی چاہیے جو ان کے لیے اور بچے کے لیے فائدہ مند ہو۔

چہل قدمی خواتین کے لیے بہترین ورزش ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے ضرور جائیں تازہ ہوا میں سانس لیں جو نہ صرف انھیں ہشاش بشاش رکھے گا بل کہ بچے کی صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ ریس یا کسی یوگا ورزشی سرگرمی سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ کر لیں کیوں کہ حمل کے سہ ماہی مرحلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ سہ ماہی میں بھاری وزن اٹھانا خطرناک ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ وزن اٹھانے کے عادی نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے اسکواٹس، تبدیل شدہ تختے، وال پش اپس بہترین ورزشیں ہیں۔ کرنچیز اور، ایب ورک سے پرہیز کریں جس میں آپ پیٹھ کے بل لیٹتے ہیں۔

اوسلو یونیورسٹی کی تحقیق میں 814 بچوں کو شامل کیا گیا۔ تحقیق میں حمل کے دوران ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں اور بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں تعلق کو دریافت کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر غیر متحرک ماوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پھیپھڑوں کے افعال کی شرح کم ہونے کا امکان جسمانی طور پر سرگرم ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

حمل کے دوران وزن میں اضافہ ناگزیر ہوتا ہے، لیکن زیادہ وزن بڑھانا آپ کی صحت اور آپ کے غیر پیدائشی بچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حمل کے دوران ضرورت سے زیادہ وزن میں حمل کے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور سی سیکشن کی ضرورت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ روزانہ ورزش حمل کے دوران آپ کو متحرک محسوس کرنے اور تھکاوٹ سے لڑنے میں مدد فراہم کرے گی۔ چونکہ ورزش قلبی نظام کو تقویت بخشتی ہے، لہذا آپ کو جلد تھکاوٹ نہیں ہوگی۔

حمل کے دوران تھکاوٹ کا ایک سبب بےچینی اور رات کو کم نیند ہونا ہے۔ تاہم، باقاعدگی سے ورزش کرنے سے گہری نیند اور زیادہ آرام دہ آرام ملے گا۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi