Tragedy, Shakespeare Aur Vishal Bhardwaj
ٹریجڈی، شکسپیئر اور وشال بھردواج
ٹالسٹائی نے ٹریجڈی لکھی ہے، وار اینڈ پیس دیکھیے، دکھ میں سکوں کے دنوں کا افسانہ ہے۔ ایملی برونٹی کا ناول وُدرنگ ہائٹس جابجا ٹریجک کرداروں سے بھرا ہے۔
ہر ٹریجڈی کے پیچھے کوئی نہ کوئی بیرونی قوت کارفرما ہے۔ نپولین کی رشیا پر چڑھائی نے وار اینڈ پیس کی صورت میں ٹریجڈی کو جنم دیا۔ اظہاریے کی تنگی جو ایملی برونٹی کو مردانہ نام سے لکھنے پر مجبور کرتی رہی ہمیں اس کا اظہار اس کی نظموں اور ناول وُدرنگ ہائٹس میں ملتا ہے۔
مگر، شکسپیئر کے ہاں ٹریجڈی کا بیان کسی حادثے کی صورت میں نہیں پہنچا۔ کوئی ایسا المیہ جو اس پر گزرا ہو یا جس میں وہ رہا ہو اور اُس کا بیان کتھارسس کی صورت میں کرنا ضروری بن گیا ہو ایسا شکسپیئر کے ہاں موجود نہیں۔ شکسپیئر نے المیوں حادثوں، تنگیوں، اخلاقی الجھنوں میں پھنسے انسان کی کیفیت کے مشاہدے اور بیان کے لیے اظہار کا کینوس کسی ایک خاص زماں و مکاں میں کسی خاص رسموں اور اخلاقی قدروں میں بُنے سماج میں بستے چند لاکھ لوگوں تک محدود نہیں رکھا۔
اگر شکسپیئر نے کسی انسانی جزبے کا بیان کیا ہے تو وہ اتنا وسیع اتنا گہرا اور اتنی پرتوں میں لپٹا ہے کہ جس کا اطلاق کسی بھی زمانے میں کوئی بھی زبان سمجھنے والے اور کسی بھی طرح کے رائج مذہبی اور اخلاقی ضابطوں میں بندھے انسان پر ہوتا ہے۔ یہ شیکسپیئر کی لکھی ٹریجڈی اور خوشی کا وہ خاص انداز ہے جو انسانی جزبات کے اظہار کی آفاقی تشریح بنا رہا۔
یہی وجہ ہے کہ شیکسپیئر کو دیگر زبانوں میں اتارنا بہت ہی زیادہ کامیاب اور پرتاثیر رہا۔ چونکہ کردار اتنے آفاقی جزبات پر استوار تھے کہ ان کو روح سے پکڑنے کے لیے زبان کی قید نہ تھی۔
ہندی تھیٹر میں تو ہر وقت شکسپیئر کے کسی پلے کی ریہرسل اور پیش کش ہوتی ہی رہی ہے مگر ہندی سینما میں باقاعدہ اسکرین پلے اور پلاٹ کے گرد شکسپیئر کی ٹریجڈی باندھنے کا کام جو وشال بھردواج نے کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکا۔
وشال بھردواج نے شکسپیئر کا لکھا اٹھا کر اسے جس ڈھب اور باریکی سے انڈین جیوگرافی میں پھیلے سوشل پولیٹیکل اور کرائم کے کلچر میں زبان کی تبدیلی کے ساتھ بغیر آرٹسٹک سینس کو مسخ کیے جزب کیا ہے اس پر وشال بھردواج کے ہنر سے زیادہ اس کا شوق تعریف کا متقاضی ہے۔
وشال بھردواج کی شکسپیئر کے تین ڈراموں کی ہندی فلم اڈاپڈیشن میں فلم حیدر سب سے زیادہ سراہی گئی۔ سولہویں صدی کے تنازعات میں گِھرے ڈنمارک کے گرد لکھے پلاٹ کو انیسویں صدی کے وسط میں کشمیری تنازعے کے پس منظر میں رکھ کر کردار سازی اور گلزار کے گیتوں میں یوں گھول دینا کہ کوئی بھی ذرہ سطح پر تیرتا نہ ملے یہ وہ رنگ سازی کا کام تھا کہ جسے کرتے ہوئے بہت سے ڈائریکٹرز نے اپنے سمیت کئی اداکاروں کے کیریئر ںےرنگ کیے ہیں۔ جس کی مثال میں حال ہی میں آئی عامر خان کی فورسٹ گمپ کی ہندی اڈاپڈیشن لال سنگھ چڈا ہمارے سامنے ہے۔
حیدر کی مقبولیت بجا مگر میرے لیے وشال کی پہلی شکسپیئر اڈاپڈیشن میکبتھ (مقبول) ہے۔ مقبول کی کامیاب اڈاپڈیشن ہی تھی جس نے وشال کو اومکارا اور حیدر کی صورت میں مزید اڈاپڈیشن کرنے کی تقویت بخشی۔ مقبول ناکام ہوتی تو شاید شکسپیئر کے کسی پلے کو یوں ہاتھ ڈالنے کی ہمت وشال سمیت کوئی دیگر فلم میکر نہ کرتا۔
مقبول کا اسکرپٹ وہی اسکاٹس بادشاہ ڈنکن اور اسکے وفادار میکبتھ اور لیڈی ڈنکن کے گرد غداری، جلن، بغاوت اور پچھتاوے پر مبنی ہے مگر اسے جنگ کے بیک ڈراپ سے اٹھا کر انڈیا کی انڈر ورلڈ مافیا ایمپائر کے کرداروں اور واقعات کی روداد میں دکھایا ہے۔ یہ بڑا اچھوتا آئیڈیا تھا، میکبتھ جنہوں نے پہلے پڑھا تھا وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ کہانی اور کردار یوں بھی دوہرائے جاسکتے ہیں۔
میکبتھ کا کردار عرفان خان کے حصے میں آیا، کے کے مینن یہ کردار کرنے والے تھے مگر وشال بھردواج نے کہا کہ اسے زیادہ پیسے آفر ہوئے تو اس نے دوسری فلم سائن کرلی۔ مقبول کی کامیابی، کے کے مینن کے لیے اپنی ایک الگ ٹریجڈی بن کر رہ گئی ہوگی۔
نصیرالدین شاہ جنہوں نے شکسپیئر گھول کے نہ صرف پیا ہوا تھا بلکہ درجنوں بار اسٹیج پر شکسپیئر کے کردار نبھائے ہوئے تھے اُنہیں ابا جی/ جہانگیر خان کا کردار جو کنگ ڈنکن کا تھا وہ ملا۔ مگر انہوں نے یہ کردار چھوڑ کر اوم پوری کے ساتھ انسپکٹر پروہی کا دو کرپٹ پولیس والے کا کردار اپنے لیے چنا اور مقبول دیکھنے والے اور میکبتھ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اس ڈرامے میں تین وچز اور فلم میں پنڈت اور پروہی کے کردار کس قدر دلچسپ، امیکٹ فل اور کلیدی تھے۔
کسی بھی تخلیقی صنف کا آغاز انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پروفیسر کا پہلا لیکچر ہو، موسیقار کی پہلی دھن ہو، اسکرپٹ رائٹر کا پہلا ڈرافٹ ہو، پینٹر کی بنائی ہوئی پہلی پینٹنگ ہو نظم کی ابتدائی سطر، مختصر کہانی کا ابتدائی پیراگراف، ناول کا ابتدائی باب یا ڈرامے کا ابتدائی منظر۔ پہلا تاثر ہمیشہ آخری تاثر ہوتا ہے۔ اس لیے شاعر، ناول نگار اور ڈرامہ نگار آغاز کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت اپنے آغاز میں جاذبیت پیدا کرنے میں لگاتے ہیں۔
شیکسپیئر اپنے ڈراموں کے ابتدائی سین کو بے حد دلچسپ انداز میں پیش کرنے کے لیے کچھ تکنیکوں کا استعمال کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، میکبتھ کا پردہ گرج اور بجلی کے ساتھ تین چڑیلوں کی آمد کے ساتھ کُھلتا ہے۔ چڑیلوں کی گفتگو کے ذریعے سامعین کو اس جنگ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جو پہلے ہی ہو چکی ہے اور ان کی گفتگو سے یہ بات مزید سامنے آتی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں سپہ سالار میکبتھ سے ملنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ یہاں گرج اور بجلی جس کے ساتھ ڈرامے کا آغاز ہوتا ہے، اس سے متوقع خطرے تشدد اور تباہی کی نشاندہی کروا دی جاتی ہے۔
میکبیتھ اور مقبول دونوں کے افتتاحی سین میں دھیمے اندھیرے، ویرانے میں اتری اداسی، تیز بارش، گرج چمک اور کڑکتی بجلی ہے۔ یہ شیکسپیئر کی ٹریجڈی کا خاص ماحول ہے۔ شکسپیئر پہلے ماحول بناتا ہے بھئی!
بھاردواج نے مقبول کا آغاز میکبتھ کے ابتدائی سین سے کیا تاہم، بطور ہندی سینما کے ہدایت کار اس نے فلم کو اپنی آڈینس کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کچھ سینما لبرٹیاں لیں۔ جیسے اسکاٹ لینڈ کی عدالت کو ممبئی انڈر ورلڈ سے بدل دیا اور دو کرپٹ پولیس والے (پنڈت اور پروہت) تین چڑیلوں کے کردار میں ڈھل گئے جو کہ کرپشن جھوٹ اور چالبازی کا استعارہ تھے اور پولیس سے بہتر یہ استعارہ کسی اور پر فِٹ نہ بیٹھتا۔
شکسپیئر کی کوئی بھی کہانی اٹھائیں، غور سے پڑھیں، جائزہ لیں آپکو ایک عورت کا کردار ملے گا جو بطور کیٹلسٹ کام کر رہا ہوگا یہ عورت ہیرو اور ولن کی زندگی میں ہونے والے ہر سانحے اور خوشی کے ساتھ مختلف حوالوں سے جڑی نظر آئے گی۔ وہ مجبور تو ہوگی مگر اس کے پاس ایک خاص حد تک بہت سے اختیارات کی سہولت بھی دکھائی دے گی۔ مقبول میں یہ کیٹلسٹ عورت تبو ہے۔
تبو، مقبول پر اداسی جاذبیت بغاوت لاچاری گو کے ہر رنگ میں اتری ہے۔ تبو کے کردار نمّی نے مقبول کے سینے میں بغاوت کا وہ آتش فشاں سلگایا کہ مقبول نے اپنے اس محسن کا سینہ چھلنی کیا جو مقبول کو لاڈ پیار سے اپنی بوٹیاں کاٹ کر اس کے ہاتھوں پکوانے کی بات کرتا تھا اور جس کے ہاتھ چوم کر مقبول اپنی آنکھوں میں بڑا محسوس کرتا تھا۔ تبو نے اپنی ادا کا ہر تیر، گداز بدن کا ہر روواں نچوڑ کر مقبول میں وہ حرارت پیدا کی جو مقبول سے پوری ممبئی جلا کر بھسم کروا سکتی تھی۔
یہی تبو پھر مقبول پر وحشت بن کر اتری، خوف بن کر لپٹی مجبوری بن کر چمٹی اور زخم بن کر رستی رہی۔ یہی وہ انسانی شعور کی اذیت بنی، اخلاقیات کے پینڈولم پہ جھولتی پچھتاوے کی دلدل میں دھنسی ٹریجڈی ہے جو میکبتھ میں شکسپیئر لکھتا ہے تو بھردواج مقبول میں ترجمہ کرتا ہے۔ جب نیم پاگل ہوئی، ناحق خون میں برابر کی شریک پچھتاوے میں دہکتی نمّی مقبول سے کہتی ہے کہ سب کچھ غلط تھا بتاؤ ہمارا عشق تو پاک تھا نا میاں! بھردواج کا مقبول اور شکسپیئر کا میکبتھ یہاں دونوں خاموش ملتے ہیں۔
یہی پچھتاوا، بغاوت کے بعد کھلی آنکھ کا صدمہ، طاقت سنبھالنے کی چاہ میں پڑی ذلت کی دھول، محبت کے حصول میں مچائی تباہی کا بیان ہے جو شکسپیئر نے صدیوں پہلے کیا اور وشال بھردواج نے پھر سے اسکرین پر یوں اتارا کے حق ادا ہوگیا۔
کہنے کو بہت کچھ ہے، کرداروں پر مزید بات ہوسکتی ہے کہ عرفان نے مقبول کی آنکھوں میں کیا کیا نہ کھیلا، ابا جی کے کردار میں پنکج کپور میں مارلن برانڈو کی جھلکیاں کیسے نظر آئیں، مگر پھر کبھی۔۔ طوالت سے خوف آتا ہے۔