Social Media Platform
سوشل میڈیا پلیٹ فارم
کامیابی کا شارٹ کٹ نہیں اگر ہے، بھی تو وہ بےہنگم آن لائن کام میں نہیں۔ اکیسویں صدی میں کوئی کھرب پتی بننا چاہتا ہے تو زمینی حقائق کی چھان پھٹک کے بعد سادہ سا فارمولا یہ ہے کہ کسی ایسی شے کو لے جو ابھی تک ڈیجیٹلائز نہیں ہوئی، اُس شے کو کسی طرح فزیکل مارکیٹ سے اٹھا کر اُس کی رسائی ڈیجیٹل مارکیٹ میں کردے اور پیسے گننا شروع کرے۔
آن لائن کام کی حقیقت نوے پرسنٹ سکیم کے اور کُچھ نہیں رہ گئی۔ پاکستان میں سکول کالجوں سے بھاگے، یونیورسٹی سے ڈارپ آؤٹ کیے نوجوانوں کو اُن جیسے ہی بےروزگار ٹائیاں لگائے یہ بات سمجھانے میں جتے ہیں کہ پڑھائی پیسے نہیں بناتی ڈگری اور سی وی کاغذ اور پی ڈی ایف کی فائلز ہیں۔ جن کا زریعہ معاش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیسے کے لیے ڈگری غیر ضروری ہے یہ سوچ نہایت خطرناک ہے۔
3ایک ایسے ملک میں جو تعلیم سے بےنیاز ہے، فکرمند نہیں ہے۔ جہاں تعلیم کے اہمیت اور قدر محض زبانی عیاشی ہے، جہاں سرکاری سکولز بچوں کی تعلیم کی بجائے جانور باندھنے شادیوں کے تمبو لگانے اور پولنگ اسٹیشن بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے ملک میں تعلیم کو 'مہذب' طریقے سے یہ کہہ کر ردّ کرنا کہ اس کا مقصد پیسے کمانا گاڑی خریدنا اچھی جگہ شادی کا بندوبست ہو جانا ہے۔
تعلیم کا زکر کرتے ہوئے شعور، عقل، تخلیق کا زکر نہ کرنا یہ پاکستان میں رہتے ہوئے اکثریت کو بزنس کی طرف راغب کرتے تحریکی اسپیکروں کا وطیرہ بن گیا ہے۔ ان کی ساری مارکیت اسٹرٹیجی درسگاہوں کی تعلیم کے خلاف ہے۔ یہاں کے تعلیم کے معیار پر تنقید ہوسکتی ہے، تدریس کے رائج طریقوں پر بحث ہو سکتی ہے، معلم کی کوتاہیاں اجاگر کی جاسکتی ہیں۔
مگر سِرے سے تعلیم کو وہاں پھینک دینا جہاں سے پہلی بار کسی جاہل نے اِسے اُٹھایا تھا یہ سراسر حماقت ہے۔ جس کے نتائج میں سب برا ہے۔ حال ہی میں آن لائن ارننگ کورس کروانے والے ادارے enablers کے 'متنازع' بانی ثاقب اظہر اور قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے بانی قاسم علی شاہ سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ جن پر مختلف حلقوں میں بات ہورہی ہے۔
ثاقب اظہر نے قاسم علی شاہ کے بینر تلے دو سو سے ذائد آن لائن ارننگ کورسز کی مارکیٹنگ کی جس میں انہوں نے لوگوں کی توجہ کھینچنے کے لیے دو سو سے زائد لوگوں کی success stories ریکارڈ کروا کے چلائی۔ ان کامیاب لوگوں کی آن لائن کمائی پاکستانی روپوں میں دو لاکھ سے دس لاکھ ماہانہ کے درمیان بتائی گئی۔ فیس بک گروپس بنائے گئے، یوٹیوب پر اشتہاری مہم چلائی گئی۔
اردو پوائنٹ اور دیگر مادر پدر آزاد صحافتی اداروں سے اِن کے مالکانِ کی جانب سے انٹرویو کا سلسلہ ہوتا ہوا مین اسٹریم میڈیا تک جاپہنچا۔ اب ثاقب اظہر کا ' پرسکون' چہرہ اسکرین پر مانوس سا چہرہ بن گیا۔ مارکیٹ دبا کے ہوئی، درجن بھر بالی وڈ فلموں کی مارکیٹ جتنا پیسہ خرچ ہوا، جس کا تخمینہ ہم سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا مارکیٹ کے ریٹس جان کر لگاسکتے ہیں مگر۔
یہ کورسز کام کیسے کروا رہے تھے، لگ بھگ پچاس ہزار کے عوض اِن کورسز میں سائن اِن ہونے والے لاکھوں لوگ کیسے کس جگہ اور کتنا پیسہ کما رہے تھے، سکھانے والے 'گُرو' کیا سکھا رہے تھے، باہر والوں سمیت اندر والے جنہوں نے اِن کورسز کی فیس بھری تھی کسی کو کُچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ آن لائن کام میں کوئی شکایت بھی کرتا تو اُسے چپ کروانا آسان ہوتا کہ مسئلہ تم میں، تمہاری اپروچ میں۔
تمہارے کلائنٹ ہنٹ کرنے کے تمہارے طریقے میں ہے۔ اُسے موٹیویشن کی کمی لکھ دی جاتی، جس کے علاج میں ماہرِ تحریک و ولولہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر قاسم علی شاہ کی ویڈیو دیکھنا بتایا جاتا۔ شکایتیں زیادہ موصول نہیں ہوتی تھیں۔ اکا دکا لوگ ادھر ادھر شکوہ کرتے کہ یار اِس میں پیسہ صرف اُن کے پاس ہے۔ جو سکھا رہے ہیں سیکھنے والے محض پروڈکٹ ہیں۔
لیکن اب کی بار ان کے متعلق کچھ اس طرح کے سیریس اور بھاری نوعیت کے کیسز سامنے آئے کہ قاسم علی شاہ اور ثاقب اظہر کو جسٹفکیشن کے لیے کمبائن ویڈیو بنانا پڑی۔ سُننے اور دیکھنے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی جانب سے دکھائی کامیابی کی تمام دو سو کہانیاں جھوٹی نکلیں۔ بتانے والوں کو پیسے دے کر اسکرپٹ رٹوا کر ویڈیو بنوائی گئیں۔
جنہیں دیکھ کر ہزاروں لوگوں نے کورسز جوائن کیے والدین نے ایسی ویڈیو دیکھ کر اپنی نکمی اولاد پر اظہارِ افسوس کیا اور لعنت ملامت کرکے ان کورسز کو جوائن کرکے لاکھوں کما کر ان کی ہتھیلی پر دھرنے کا الٹی میٹم دیا۔ ڈگری کے بعد جاب کے لیے تگ و دو کرتے نوجوانوں کے حوصلے پست ہوئے یہ سن کر کہ کالجوں سے ڈراپ آؤٹ لاکھوں کما رہے اور ہم لاکھوں دے کر ڈگری لیے پچیس ہزار کی نوکری پر مجبور۔
ہم سے کہاں غلطی ہوئی؟ بھگوان کے انصاف پر بھی شک ہونے لگا۔ سمجھنے والے شعوری اور کریٹیکل اپروچ رکھنے والے معقول دماغوں کے لیے ان کورسز اور ان کے چلانے والوں کا ڈراپ سین ان کورسز کے اجرا کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ لیکن عام لوگوں کے لیے یہ فوری سمجھنا مشکل تھا اور اِسے جھوٹا نہ سمجھنا مجبوری، مگر اب سمجھ آرہی جب ان کورسز کو چلانے والے امیر ترین ہو رہے۔
اور سیکھنے والے فی الحال اس قابل نہیں ہوئے کہ وائی فائی کا بِل نکال سکیں۔ دھوکہ فراڈ چالبازی ہاتھ کی صفائی آنکھ اور ہاتھ کا ہیر پھیر ان سب کی تاریخ قدیم مصر سے بھی پُرانی ہے۔ ہر دور میں ٹھگ پیدا ہوتے رہے، جو سماج میں رائج ضرورت طلب اور لالچ کو سمجھ کر طریقہء واردات بناتے اِن میں ترمیم کرکے اِسے بدلتے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرتے۔
حیران کُن بات یہ رہی کہ ٹھنگنے والے ہر دور میں ایک جیسے ہی نیچر لے کر پیدا ہوتے رہے۔ ان ٹھگ بازوں میں تاج محل اور ایفل ٹاور کسی شوقین لالچیے کو سستے داموں فروخت کرنے والے بھی مل جائیں گے، پانی سے گاڑی چلانے والا، ڈبل شاہ، جعلی یونیورسٹی مکمل رائج پڑھائی کے نظام کے ساتھ چلانے والے بھی مل جائیں گے۔ قاسم علی شاہ، ثاقب اظہر، آذاد چائے والا اور وقار زکا کے پیڈ کورسز کرکے کتنے لوگوں کے مالی حالات سنبھلے۔
اس کے متلعق ایک جانبدار اور unbiased ڈاٹا ملنا مشکل ہے، مگر یہ نہایت ضروری ہے۔ آن لائن میں سے بڑا اور کرنٹ فیورٹ فراڈ کا زریعہ ایمازون ہے۔ باریش داڑھیوں والے اُجلے کُرتے پہنے یا ٹائی لگا کر سر پہ ٹوپی رکھے ٹرینر کو سُنیں تو لگتا ہے کہ جیف بیزوس کو بھی ایمازون کے بارے اس قدر علم نہیں جتنا ان لوگوں کو ہوچکا ہے۔ جنابِ من، بات وہی کامیابی کا منتر کوئی نہیں کوئی شارٹ روٹ نہیں کوئی وظیفہ نہیں۔
سمت طے کرنی پڑتی قابلیت جان کر خود کو قابل کرنا پڑتا۔ ہر چیز کے لیے پیسہ ضرورت ہے۔ اِس خیال سے بڑھ کر موٹیویشن کوئی نہیں۔ اپنا بزنس شروع کرنے والا آئیڈیا مزے کا ہے۔ دفتر میں کام کے بوجھ تلے یہ خیال لوری بن کر سہلا دیتا ہے۔ مگر اپنے کاروبار کا فِیتا خیالوں اور بزنس میں کامیاب لوگوں کی کہانیاں سُن کر نہیں کاٹا جاسکتا۔ بزنس میں پیسے سے پہلے ہوشیار دماغ چاہیے۔
یقین کیجیے ایسا نہیں ہے، پیسہ جیب میں ہو تو دماغ ہوشیاری ڈھونڈ لاتا ہے۔ والدین نہیں سمجھیں گے، مگر ایلون مسک نے پہلے اسٹارٹ اپ کے لیے اٹھائیس ہزار اپنے والد سے ادھار لیے، جیف بزوس کو ایمازون بنانے کے لیے پہلی سیڈ منی تین لاکھ امریکی ڈالر اس کے والدین کی جانب سے دی گئی، بل گیٹس کی امی کے سیدھے تعلقات IBM کمپنی سے تھے۔
اس سویٹ ممی نے اپنے بیٹے بل گیٹس کا مائیکرو سافٹ IBM کے سامنے نہ صرف پیش کروایا، بلکہ اِسے اپروو کروا کے بیٹے کی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھوں سے لکھا کُچھ بھی رینڈم نہیں ہو رہا کسی کے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ ٹیلنٹ کو ایک مضبوط ہوشیار مارکیٹی ذہنی کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے۔ بچہ ہوشیار نہ ہو تو پھینکا نہیں جاتا آپ کی پیداوار ہے۔
اسے دوسرے کی اولاد کی کامیابی کی ٹائم لائن پر رکھ کر جانچا نہیں جاتا ڈانٹا نہیں جاتا۔ اولاد کو دینا فرض نہیں اُن سے لینا فرض نہیں دونوں کا رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مختلف عمروں میں فیور دیتے رہیں، مگر والدین سمجھنے کی عمر اور رتبے سے نکل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرتی اولاد کو خود اِس میں تمیز کرنی چاہیے۔
ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر آن لائن کام سکھانے والے گلی میں برتن بیچنے والوں کی طرح آوازیں لگاتے پھر رہے ہیں بحث کرتے ہیں کہ اتنے نہیں اتنے لیں گے اور ان کی گٹھڑیوں میں سوائے خاک اور مڈل فنگر کے کچھ بھی نہیں۔ بس بچیے، جو ڈگری چل رہی اُسے چلائیے جو پڑھ رہے اُسے اچھا پڑھنے کی کوشش کیجیے جو کاروبار چل رہا اُسی میں آگے جانے کا سوچیے نقالوں سے ہوشیار رہیے۔
ٹھگوں کے چہرے اور دامن شفاف اور بےداغ ہوتے ہیں سر پہ سینگ نہیں ہوتے سو پہچان میں نہیں آتے۔