Mutalia, Mutalia Aur Mutalia
مطالعہ، مطالعہ اور مطالعہ
کسی بھی طرح کی مخالف سوچ نظریہ اور عقائد رکھتے ہیں تو خود کو ممکنہ سوالوں کی بوچھاڑ کے جواب کے لیے تعلیم یافتہ کیجیے سائنس پڑھیے لٹریچر سے لگاؤ رکھیے، مذہب سیاست سب سے واقفیت رکھیے، دنیا میں ہونے والی ہر نئی سرچ و ریسرچ کے نتائج جانیے، نظریہ ارتقاء سے فلسفہ حیات کی تمام بنیادی اور ایڈوانس جڑوں میں پھیلی باریکیوں کو جانیے سوچیے کہ کیوں کیسے اور کب کیا کچھ عمل میں آیا، نظریات کیسے پیش کیے گئے، کیسے رد ہوئے کیوں رد ہوئے نئے نظریات تجربات اور تحقیق کو قبول کرنے کے لیے کونسے ایسے دلائل پیش کیے گئے جو مجموعی طور پر قبول کیے گئے۔
سیلف کانفیڈنس ہر علم سے بھاری ہوتا ہے اور جاہل سیلف کانفیڈنس سے بھرے ہوتے ہیں، شور کرتے ہیں، ہلہ مچاتے ہیں، طیش دلاتے ہیں غیر منطقی پہلو کو درست مان کر بضد ہو جاتے ہیں لچک نہیں رکھتے عقیدے کا ریفرنس لے آتے ہیں، خاموشی کو ہار سمجھتے ہیں تلخی پر چِڑ جاتے ہیں ان کے محدود علم کا صدمہ اور الجھن دیکھ کر سامنے والا سر درد لے کر رخصت چاہتا ہے اور یہ مطمئن محفل میں آخر تک بیٹھے رہتے۔
محدود مطالعہ اور ریسرچ محدود سوال پیدا کرتی ہے، سوچ کا کینوس تنگ کر دیتی ہے اور تنگ کینوس میں نئے رنگوں کی جگہ نہیں بچتی ادھوری پینٹنگ آگے نہیں بڑھتی، کسی سوال کو غیر حل طلب مان کر کسی سپریم ہستی کی موجودگی اور کاریگری کا تائب ہو جانا اور اس کے مخالف ہر جواب پر ہنسی اڑانا یا گردن یہ کسی بھی طور انسانی عقل کی معراج نہیں ہو سکتی۔ انسان نے اپنا ہر پرانا رد کرکے ہی ہر نیا بنایا ہے۔
چند سوال جن کے جواب سمجھنے کے لیے روایتی مطالعے سے ہٹ کر مشاہدہ اور انفرادی سوچ کے گرد کھڑی عقیدے کی پھسلن دار چار دیواری کو پھلانگ کر منطق کے خشک میدان میں اترنا جہاں پرانے پڑھے، سمجھے اور یقین کیے ہوئے کو ترک ہوتا دیکھنا، سوچ کو نئی جہت نئے زاویے سے مڑتا دیکھنا یہ اپنی نوعیت میں ایک خوفزدہ کر دینے والا تجربہ ہے جسے کرنے سے اکثریت ڈرتی ہے اور سوچ کی یہ محدود دیوار ان کے لیے ہمیشہ کے لیے طویل کر دی جاتی ہے۔
کچھ سوال جن کا تسلی بخش سرا تب ہاتھ لگ سکتا ہے جب ان سوالوں کی متعلقہ ایڈوانس فیلڈ کے مطابق مطالعے مشاہدے اور عقائد کی کسوٹی سے بالاتر ہو کر ذاتی غور و خوص کیا جائے۔ ادھورے علم پر سچ جھوٹ کی بحث کرنے سے خوف کھانا ایک شعور یافتہ ذہن کی عادت ہے۔ اگر آپ نے مختلف بات کی ہے تو آپ سے مختلف سوالات کیے جائیں گے، یہ سوال پوچھنے والے کے محدود مطالعہ کا ثبوت بھی دیں گے، غصے کا پتہ بھی دیں گے اور جن پر آرگومنٹ کرنے کے لیے یا آرگومنٹ دینے کے لیے سائنس کی مختلف فیلڈز کا علم اور سمجھ ضروری ہوگی محض کامن سینس جن کا جواب نہیں دے سکے گی۔
نظریہ ارتقاء کے حامی ہیں تو ان چند ممکنہ سوالات کے جوابات کے لیے خود کو تیار رکھیں کہ، تھیوری آف ایولوشن اگر سائنسی سچ ہے تو یہ تھیوری کیوں ہے لاء کیوں نہیں بنا؟ اگر انسان کا وجود قدیم ایپس سے ارتقاء پذیر ہوا تو آج کے ایپس انسان کیوں نہیں بن رہے؟ اگر ارتقاء مسلسل ہونے والا ایک پروسیس ہے تو اس نے انسان کو انسان سے کسی دوسری مخلوق میں تبدیل کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال آسان ہیں، کامن سینس سے اٹھا کے کوئی بھی پوچھ سکتا ہے مگر ان کے جواب محض کامن سینس سے دینا ناممکن تو نہیں مشکل بہت ہے اس کے لیے ڈارون سے پہلے کی علم حیاتیات کا بنیادی علم اور بعد میں ڈارون کی اوریجن آف سپیشز سے ماڈرن ڈی این اے کوڈنگ کی جہتوں سے واقفیت ضروری ہے مگر سوال پوچھنے والے اور جواب دینے والے دونوں اس سے ناواقفیت رکھتے ہیں تو بحث کا یہ سلسلہ کہیں بھی تھمنے والا اور نتیجے پر تو قطعی نہیں پہنچنے والا، دونوں بول بول کر اور گوگل سرچ کرتے کرتے تھک جائیں گے۔
چند سائنسی دعوے جو ایک قدیم کتاب سے لائے جائیں گئے جو سائنسی نہیں ہے مگر ان پر جدید سائنس سے آرگومنٹ مانگیں جائیں گے کہ پہاڑ نہ ہوتے تو زمین پر زلزلے نہ تھمتے، مرد میں ایک پسلی عورت سے کم ہے جو حوا کی آدم کی پسلی سے پیدا ہونے کی دلیل ہے۔ زمین ساکن ہے کیونکہ حرکت میں ہوتی تو انسان اپنے گھر سے گھومتا ہوا ہمسایوں کے گھر آنکلتا۔
ایسے دعوں اور کلیمز کا گلا محض علمی مطالعے گہرے مطالعے مزید مطالعے اور مسلسل مطالعے سے ہی دبایا جا سکتا ہے، ان کے جواب میں پوچھنے والے کی بیوقوفی پر سر پکڑنا طیش میں آنا ناکامی سمجھا جائے گا ایسے حالات میں یا تو کسی ایسے کے ساتھ اس بحث میں پڑا نہ جائے اور عامیانہ باتوں سے وقت گزاری کی جائے اور اگر گفتگو کا رخ اس طرف آئے تو پوچھنے والے کو سوچ کے اس مقام تک لا چھوڑا جائے جہاں سے اسے اپنا پڑھا جھوٹ لگے اور سوچ کی دیوار پھلانگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہ آئے۔