Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Kahani Nahi Banti

Kahani Nahi Banti

کہانی نہیں بنتی

اب تک لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ مقابلے کے امتحان کی تیاری کر چکے ہیں کر رہے ہیں جان توڑ محنت کرتے ہیں دن میں بارہ گھنٹے پڑھتے اور پھر بھی امتحان میں ناکام ہو کر کچھ اور کرنے لگتے ہیں، کوئی کہانی نہیں بنتی۔

سینکڑوں لوگ گھر چھوڑ کر پیشن فالو کرتے ہیں نام شہرت اور من کی آسودگی کی چاہ میں بے مراد ٹھہرتے ہیں کچھ بھی نہ حاصل کرکے مر جاتے ہیں، کوئی کہانی نہیں بنتی۔

لاکھوں طالب علم ہزاروں یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کرتے ہیں معاش نہیں ملتا ذہن تھک جاتا ہے دماغ الٹ جاتا ہے خودکشی کر لیتے ہیں، کوئی کہانی نہیں بنتی۔

دلچسپ اور متاثر کن کہانی صرف کامیابی کی بنتی ہے یہ کامیاب کوئی بھی ہو کسی بھی زریعے سے ہو کتنے ہی سہل طریقے سے ہو اُسے کامیابی کی کہانی مشکلات کے پیچ و خم سے گزار کر بنانی پڑتی اور ڈرامائی انداز میں سنانی پڑتی کیونکہ سننے والے کان حسرت سے دیکھنے والی آنکھیں کامیابی کو آسانی سے فراہم ہوتا نہیں سن سکتے یہ دماغ پراسیس ہی نہیں کرسکتا۔

ناکامی کی کہانی بھی صرف کامیاب ہوئے شخص کے منھ سے اچھی لگتی، کیونکہ اس میں ٹویسٹ ہوتا سب جانتے کہ چونکا دینے والا ایلیمنٹ ابھی آتا ہی ہوگا کہ وہ کس طرح کن کن نامساعد حالات سے گزر کر کامیاب ہوا۔

ناکام شخص کہانی سنائے تو کون سنے جب کہ اس کی کہانی سب پر عیاں ہے، اس کا حال بتاتا ہے کہ ماجرا کیا ہوا کیا بیتی وہ اپنی کہانی میں کیا بتائے؟ وہ جب یہ الفاظ کہے کہ اس نے بھی محنت کی سخت محنت تو سننے والا اُسے وہیں روک کر ہنسے اور پوچھے کہ پھر کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟ اس سے آگے کی کہانی وہ جاری رکھ پائے گا؟

ناکام لوگوں کی کہانیاں کیوں منظر عام پر نہیں آتی، کیوں انہیں سنایا نہیں جاتا، سنانے والے گھبراتے سننے والے بھاگتے، کیا زندگی میں حاصل کرنا، اچیو کرنا ہی ہیڈ لائن بنتی ہے کیا کچھ نہ کرنا یا کرنے کی کوشش میں ناکام ہو جانا مطلوبہ ہدف تک نہ پہنچ پانا اور اس کے بعد بس خاموشی سے بچی ہوئی گزار جانا ایک انوکھی بات نہ سہی مگر ایک نارمل بات کیوں نہیں ہوسکتی؟

ہر دکھ میں سبق ہو یہ ضروری نہیں، مسلسل کوشش میں کامیابی ہو یہ ضروری نہیں، ہر اسٹرگل پھل لائے یہ ضروری نہیں، محنت رائیگاں جاسکتی دکھ تکلیف رنج اور قربانی محض دکھ تکلیف رنج اور قربانی تک ہی رہ سکتے ہیں اس سے آگے کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ لوگ ناکام ہوسکتے ہیں گمنام ہوسکتے ہیں مگر وہ کہیں نہ کہیں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ان کی اس زندگی کو قبول کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

اگر بیس لوگ ریس میں بھاگے اور اس میں جو سب سے آخر میں آیا اس نے اپنے سے آگے انیس کو نکلتا دیکھا کیا اس کی علیحدہ سے کوئی کہانی نہیں بنتی کہ اس پر کیا گزری کس حوصلے سے اس نے یہ دیکھا کامیاب ہوئے لوگوں کی ریس میں آخر وہ بھی تو تھا مگر گمنام کیوں ہوا قصے تو اس کے پاس بھی ہوں گے سبق تو اس نے بھی سیکھا ہوگا۔

ناکامی نارملائز کیوں نہیں ہوسکتی؟ ہر ناکامی سے کامیابی کی کوئی شاخ پھوٹنے کی توقع اور سبق ہی کیوں دیا جاتا رہے گا؟ کیا ناکامی کو بغیر کسی دکھ کے قبول کرنا کامیابی نہیں، زندگی کے بے ترتیب پھیلے وسیع میدان میں کوئی انسان کسی ایک سمت میں اگر بھاگ کر کامیاب نہیں بھی ہوسکا کہیں جانا تھا کسی مقام تک پہنچنے کی چاہ میں ناکام ہوا تو اِس سے آگے کوئی رستہ ایسا نہیں نکالا جا سکتا جہاں وہ بغیر صدمے کے جی سکے اور ناکامی کی کہانی من و عن جیسی ہے ویسی اپنے نام کے ساتھ سنا سکے؟

فلم بارہویں فیل کے کونٹینٹ کو چھوڑیے کرداروں کو دیکھیے۔ چمبل سے آیا منوج خود غرض ہے۔ اس کے اردگرد کرداروں کو ناکام ہوتا دیکھنے والے افسردہ ہیں مگر وہ نہیں ہے۔ زرا سا کنسرن دلاسہ تسلی تک نہیں اس کی جانب سے دکھائی گئی یہ ڈائریکٹر کی دانستہ چالاکی تھی کہ اسے اپنی کامیابی کی لگن میں مصروف ایک سفاک محنتی دکھایا۔ دراصل منوج ناکامی سمجھنے سے عاری ہے وہ گاؤں سے شہر آیا اس نے اِس سے پہلے نہ ناکامی دیکھی نہ کامیابی اور جس جگہ سے وہ آیا وہاں بھی کامیابی کے قصے مشہور تھے ناکامی کی نفسیات سمجھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔

یہ ایکٹ بہت سی چیزیں واضح کرتا ہے۔ کامیابی پروپیگنڈا ہے جو بڑی محنت اور پلاننگ سے بنایا اور پھیلایا گیا جس کے ایجنڈے میں ناکامی کو گمنامی سے جوڑ کر ڈراؤنا پینٹ کیا گیا۔ ماڈرن دور میں گمنامی کا ڈر اجاگر کیا گیا شعور نے اسے ذائل کرنا تھا مگر ہوشیار کیپٹلسٹ دماغوں نے اسے تقویت دی انہیں کامیابی بیچنی تھی یا کامیاب لگنے کا وہم بیچنا تھا انہوں نے کامیابی کے پیرامیٹرز بنائے، ناکامی کو نصاب میں ڈیفائن کیا گیا۔ ناکامی کو ڈیفائن کیا گیا غور کیجیے کیا یہ وہ چیز تھی جو ڈیفائن ہوسکے؟

کوئی ناکام نہیں ہونا چاہتا ناکامی کا آسیب اتنا اندر تک سرایت ہوچکا کہ اس کے تصور میں ہی بہت سے لوگ نئے رستوں پر نکلنے سے ڈرنے لگے کہ یہ کہیں روگ نہ بن جائے۔ حد یہ ہے کہ ناکام ہوا شخص بھی خود کو کامیابی کے دلاسے سے ہی تسلی دیتا ہے حالانکہ ہر کامیابی مصنوعی ہے اور ناکامی ہی انسانی زندگی کا خالص ترین روپ ہے۔

زندگی اگر چلتی گاڑی ہے تو بیک سیٹ پہ ٹیک لگا کر سونے والوں، سیٹ نہ ملنے پر سفر کھڑے ہوکر کاٹنے والوں، پورا سفر گاڑی کے بیچ ناچنے والوں اور فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے تحکمانہ انداز سے پیچھے والے مسافروں کو دیکھنے والوں کو جب اس گاڑی نے ایک ہی منزل پر اتارنا ہے اور اس حقیقت سے کسی کو فرار ممکن نہیں کہ سب مختلف انداز سے ایک ہی منزل کی جانب رواں ہے تو سیٹ نہ ملنے والے مایوس کیوں کر ہیں اور سیٹ ملنے والے فاتح کیوں لکھے جا رہے؟ سیٹ پر بیٹھے سکون سے سفر کاٹنے والوں کو مبارک دینا اور سیٹ نہ ملنے والوں کی تھکن کو قبول نہ کرنے کی منطق پر کبھی تو کوئی تنقید کی جائے کچھ نہ کچھ تو کہا جائے۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf