Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Jung May Sub Harty Hain

Jung May Sub Harty Hain

جنگ میں سب ہارتے ہیں

جنگ میں سب ہارتے ہیں، یہاں تک کہ جیتنے والا بھی، امن کی خاطر جنگ شروع کرنے والے مُلک اور لوگ کبھی امن کے خواہش مند نہیں ہوسکتے۔ جب تک حکومتیں جنگی ساز و سامان خریدتی رہیں گی، جنگ کو بہادری جرات جسارت شجاعت اور دیدہ دلیری سے منسوب کرکے نغمیں بناتی رہیں گی، تب تک ہم بچوں کو کیسے سمجھائیں کہ جنگ کے دامن میں خاک اور صرف خاک ہے۔

جنگ ہر خواب ہر مُسکراہٹ ہر تعمیر ہر خوشبو ہر کلی اور ہر لطیف احساس کی قاتل ہوتی ہے۔ جنگ صرف کفن سینے اور قبریں کھودنے والوں کے لیے خوشیاں لاسکتی ہے۔ جنگ کا ہر پہلو ہولناک اور رنجیدہ ہے۔ ہالی وڈ کی سینما تاریخ میں وار یونرا پر لاتعداد فلمیں بنائی گئی، ان فلموں کا پیغام اینٹی وار اور پلاٹ جنگ کی تباہ کاریوں کا احاطہ کرتا ہے۔

ورلڈ وار فرسٹ میں داخل ہوئے تیس ڈالر ماہانہ تنخواہ پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے فوجی سے زیادہ شاید ہی کوئی جنگ سے ڈرتا ہو اور جنگ کا انجام جانتا ہو۔ بریڈ پٹ کی شہرہ آفاق فلم فیوری جنگ میں داخل ہوئے مجبور فوجیوں کا دُکھ ہے۔ فلم کا ایک سین ہے، جہاں بریڈ پٹ اپنا فرانسیسی ٹینک لیے جرمن فوج کے ایک جتھے پر قابض ہوتا ہے۔

مخالف پلٹون کے ایک فوجی پر جب گن تانی جاتی ہے تو وہ جیب سے اپنی بیوی بچوں کی تصویر نکال کر بریڈ پٹ کے سامنے گڑگڑا کر زندہ رہنے کی بھیک مانگتا ہے۔ یہ منظر جنگ لڑنے والے فوجیوں کی اصل حقیقت ہے۔ وہ خوفزدہ سچ ہے، جسے بہادی کا نام دیا جاتا ہے۔ بچوں سے بچھڑنے اور بےمقصد مارے جانے کا خوف ایک فوجی کی تمام تر بےبسی کی عکاسی ہے۔ یہ فلم نیٹ فلکس کی جرمن پروڈکشن کے ساتھ بنائی سب سے مہنگی فلم ہے۔

اسی ٹائٹل پر 1929 میں ریٹائرڈ جرمن فوجی ایرک ماریا نے ناول لکھ کر وار لٹریچر کی بنیاد رکھی۔ ناول کی مقبولیت کے ساتھ ہی اگلے سال اس کو پردے پر اتارا گیا اور یہ فلم آج بھی کلاسیک وار فلم کے طور پر نہایت عزت احترام کے ساتھ لیجنڈری فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ نیٹ فلکس کی یہ اڈاپٹیشن اوریجنل ناول اور کلاسیک فلم سے مکمل ہٹ کر ہے۔

اس کا مرکزی پلاٹ اور ٹائٹل تو اوریجنل ناول سے ماخذ ہے، مگر کہانی میں یکسر مختلف زاویوں سے ردو بدل ہے۔ اوائل شباب کی عمروں میں داخل ہوتے سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے جنگ، جنگی میدان، ہتھیار اور وردی سے گلوریفائی ہوکر جرمن فوج کا حصہ بنتے ہیں، مگر جنگی میدان میں اترتے ہی ان پر حقیقت قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ ہر خواب کرچی ہر مسکراہٹ خوف اور ہر منظر کیچڑ آلود ہوکر ان پر عیاں ہوتا ہے۔

فلم کا مرکزی خیال کوئی اچھوتا نہیں ہے۔ کچھ لینڈ سکیپ نہایت مسحور کن ہیں۔ فلم کا میوزک اور خاص طور پہ جنگ شروع ہونے سے پہلے جہاں جہاں منحوس سائرن کی آواز سروں پر کپکاتے ہاتھوں سے ہیلمٹ پہنتے فوجیوں کو ڈراتی ہے، وہیں دیکھنے والے کو بھی اپنے ساتھ جوڑتی ہے۔ فلم ایکٹنگ کے لحاظ سے ایک سنگل فریم میں بھی کمزور دکھائی نہیں دی۔

مین کریکٹر پال کے چہرے سے خوف، گھبراہٹ اور اکتاہٹ کے تاثرات اس قدر گہرے اور نیچرل ہیں کہ باہر بیٹھے ناظر کو اس کی حالت پر ترس آنے لگتا ہے۔ ناول کا مرکزی خیال یوتھ کا جنگ سے انسپائرڈ ہوکر فوج میں شمولیت اختیار کرنے پر استوار تھا۔ مگر فلم یہاں ناکام نظر آئی محض شروعاتی دس منٹ میں پانچ لڑکوں کو اسکول یونیفارم سے جنگ کے میدان میں کھڑے دکھاتی ہے۔

یہاں وہ عوامل اور نفسیاتی بدلاو تفصیل سے بیان ہونے چاہیے تھے، جن کی وجہ سے حکومتیں اور میڈیا آپسی ساز باز سے نوجوانوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے ذہن سازی کرتے ہیں۔ ہر جنگ پر مبنی فلم کی طرح اس کا اختتام بھی دیکھنے والے کو اس دماغی بحث پر چھوڑ جاتا ہے کہ جنگ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اِسے فوجیوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا اور جو حکومتیں ایسا کرتی ہیں وہ کبھی اپنے ملک کے لوگوں کی بھلائی نہیں چاہتی۔

بچوں کے چہرے دیکھیں اور اِن پر رحم کریں۔ نصاب اور مذہب میں جنگوں کو گلوریفائی کرنا بند کر دیں۔ حُب الوطنی کا مطلب بدلیں۔ جنگ میں شہید ہونا، حب الوطنی ہرگز نہیں بچوں کو جنگ کی ہولناکیاں پڑھائیں۔ جنگ کے عذاب بتائیں۔ اُنہیں بتائیں کہ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں دشمن کے پانچ جہاز گرائے تو کتنے خاندان تباہ ہوئے۔ جو مرے اور مارے گئے۔

اُن کے خون سے آج تک کُچھ نہ بدل سکا حکومتوں کی آپسی تجارت میں زرا فرق نہیں آیا۔ بہادری کے قصے بہت سُنا چکے، پڑھا چکے اب بس کریں۔ جنگوں کے ساتھ عظیم لکھنا بند کریں۔ جنگیں عظیم نہیں ہوتی جنگ میں جیت بھی نہیں ہوتی، جنگ میں صرف ہار ہوتی ہے دونوں طرف سے یہ بات سمجھانے میں دیر لگے گی مگر بچے کا فوج میں جانے کا شوق اور اجازت والدین کی ناکامی ہے۔ جنگ کی تباہ کاریوں پر مبنی فلمیں دیکھیے، بات سمجھیے اور امن کی بات کیجیے۔

Check Also

Safar e Hayat Ke 66 Baras, Qalam Mazdoori, Dost Aur Kitaben

By Haider Javed Syed