Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Intizar Hussain Ka Basti Novel

Intizar Hussain Ka Basti Novel

انتظار حسین کا "بستی" ناول

یہ سن دو ہزار دس کی جون کے مہینے کی سہ پہر ہے۔ تپتا سورج ڈیوڑھی اور دلان کے بیچ صحن میں اتر کر کمروں کی ابتدائی حدود پہ تنی بانس کی چلمن سے اندر مکینوں کو کرنوں سے جھانکنے کی پر زور کوشش کر رہا ہے۔ کمرے کی کھلی چوکھٹ پر ائیر کولر منھ پھنسا کر گیلی خسوں کی سوندھی مہک میں معطر ننھے قطرے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کمرے میں مسلسل بکھیر رہا ہے۔ چارپائیوں پر آم کی پھاڑیوں کے ہمراہ روٹی سالن اور لسی دوپہر کے کھانے کے لیے چن دی گئی ہے۔ صحن میں پانی کے پائپ سے پھسلن کھیلتے بچوں کو اندر کمرے میں بلوا لیا گیا ہے۔ پرسکون قیلولہ کمرے میں اتر کر کھانے کے فوری بعد مکینوں کو اپنی آغوش میں لینے کے لیے تیار ہے۔

سب سونے کی تیاری میں ہیں اور ان سب سے لاپرواہ بغل والے کمرے میں میرے ہاتھوں میں سُرخ سرورق اور چند پھٹے صفحوں والا ایک ناول ہے جس کے پہلے سفید صفحے کے عین درمیان کالے عربی فونٹ سے لکھی چار لفظی آیت نمایاں ہے۔ "لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ"۔ یہ آیت اس ناول کا کلید ہے۔ یہی آیت ناول کے مرکزے میں گھوم رہی ہے۔ آیت جس کا متن شہرِ مکہ کی قسم پر مشتمل ہے۔ یہ والہانہ قسم ربِ ذوالجلال نے اپنے محبوب کو پناہ دینے والے شہرِ مکہ کے لیے کھائی۔ محبوب کے شہر کی قسم کا بیان محبت کے اظہار کا انوکھا اور اچھوتا بیانیہ ہے جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوا۔

ناول نگار انتظار حسین آیت کے مفہوم و مقصد سے خوب آگاہ ہے۔ وہ اپنی "بستی" کو شہرِ مکہ جانتا ہے اور اس سے عقیدت کا اظہار اور ناول کی بنیاد رکھنے کے لیے وہ انسانی لفظوں سے ہٹ کر اس خدائی آیت کا استعمال کرتا ہے۔ اس آیت کی تشریح اور ناول کا مضمون اُس گرمی کی دوپہر میں حبس زدہ کمرے میں بیٹھے ہوئے سمجھ میں نہیں آیا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی اس چار لفظی آیت سے شروع ہونے والے ناول کو سمجھنے کے لیے اگلے دس سال لگے۔ شام کی جانب سرکتی گرمی کی اُس دس سال پرانی دوپہر میں دلان میں اترے سورج، بانس کی تنی چلمن اور پانی میں پھسلن کھیلتے جوان ہوئے بچوں کی قسم یہ ناول جس کا ہر لفظ، ہر کردار، ہر حصہ اب تک میرے ساتھ رہا ہے۔

انتظار حسین کا "بستی" ناول نگار کے بچپن کا رومانس ہے اور یہ ناول میرے بچپن کا رومانس ہے۔ انتظار حسین نے اس ناول میں ذاکر کے کردار میں خود کو ڈھال کر روپ نگر کے گاؤں میں گزرا بچپن اور لاہور میں گزری جوانی اور جابجا پھیلی حسرتوں کا بیان گیارہ حصوں میں تقسیم کیا۔ ناول کے آغاز میں زمین پر ہر نوع کے ارتقاء کی ابتدائی شکل کی رعنائی، خستگی اور دیکھنے والی آنکھ کی حیرانی کا بیان کچھ یوں کیا۔

"جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی، جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں جگ بولتے تھے۔ کتنا حیران ہوتا تھا وہ اردگرد کو دیکھ کر کہ ہر چیز کتنی نئی تھی اور کتنی قدیم نظر آتی تھی۔ نیل کنٹھ، کھٹ بڑھیا، مور، فاختہ، گلہری، طوطے جیسے سب اس کے سنگ پیدا ہوئے تھے، جیسے سب جگوں کے بھید سنگ لیے پھرتے ہیں۔ مور کی جھنکار لگتا کہ روپ نگر کے جنگل سے نہیں برندا بن سے آ رہی ہے۔ کھٹ بڑھیا اڑتے اڑتے اونچے نیم پہ اترتی تو دکھائی دیتا کہ وہ ملکہ سبا کے محل میں خط چھوڑ کے آ رہی ہے اور حضرت سلیمان کے قلعے کی طرف جا رہی ہے۔ "

ہاتھی تو حیرت کا ایک جہان تھا۔ اپنی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جب وہ اسے دور سے آتا دیکھتا تو بالکل ایسا لگتا کہ پہاڑ چلا آ رہا ہے۔ یہ لمبی سونڈ، بڑے بڑے کان پنکھوں کی طرح ہلتے ہوئے، تلوار کی طرح خم کھائے ہوئے دو سفید سفید دانت دو طرف نکلے ہوئے اسے دیکھ کے وہ حیران اندر آتا اور سیدھا بی اماں کے پاس پہنچتا۔

"بی اماں، ہاتھی پہلے اُڑا کرتے تھے؟"

اس سادہ معصوم ابتدائیے کے بعد انتظار حسین کا کردار ذاکر بستی کی بساط پلٹتے دیکھتا ہے۔ طاعون پھوٹتا ہے، لوگوں کو مرتے اور مسیحائی کو ناکام ہوتے دیکھتا ہے۔ صابرہ کی ملائم پنڈلیوں سے سینے پر ابھرتی کونپلوں کا ابھار محسوس کرتا ہے۔ روپ نگر میں اپنے ابا کی ڈھیلی پڑتی گرفت، تقسیم کا المیہ، خاندان کے ہمراہ اپنا روپ نگر چھوڑنا، نیا دیس، نئے لوگ، نئی رسمیں، نئے غم، نئی خوشیاں اور اس تمام کے ساتھ رُوپ نگر کی یاد کی پھانس۔ پرانی حویلی، کربلا، پرندے، جانور اور فطرت۔ نئے دیس میں ذاکر کو جب بھی کوئی نیا دُکھ ملتا ہے اُسی وقت اُسے آسودگی کے لمحات یاد آ جاتے ہیں۔ اپنا ماضی آئینہ بن کر حال کے متوازی کھڑا ہو جاتا ہے۔

ناول کے بارے میں تنقیدی، تقابلی اور فنی جائزہ تو کوئی ذرخیز دماغ ہی کرے مجھ جیسی جزباتی نابالغ اس ناول میں سے بچپن میں گزری جون کی گرمی کی دوپہریں ہی نہیں نکال سکی ادبی جائزہ تو بڑے آگے کا سفر ہے۔ بستی میں وقت کو جس طرح زاویے بدل بدل کر دیکھا گیا ہے۔ وہ اس ناول کو منفرد بناتا ہے۔ ایک تو ذاتی ماضی ہے، دوسرا اجتماعی ماضی ہے اور پھر ذاتی حال ہے۔ ناول کے نصف آخر میں ذاتی حال اور اجتماعی ماضی آپس میں گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ جس آشوب سے ناول کا مرکزی کردار اور اس کا گرد و پیش دوچار ہے وہ نیا نہیں۔

بستی میں انتظار حسین نے اپنی تمام تر ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں کو یکجا کر کے اپنی سوانح عمری کچھ اس ڈھب سے لکھ دی ہے کہ یہ نجانے کتنوں کے لیے ماضی میں جھانک کر ناسٹیلجیا میں ڈوبی دوپہریں کھنگالنے کا مستقبل ذریعہ بن گئی ہے۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf