Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Film Aur Filmi Asraat

Film Aur Filmi Asraat

فلم اور فلمی اثرات

ایک غلط فہمی شاید ہی کبھی دور ہوسکے کہ فلمیں محض انٹرٹینمنٹ کے لیے ہوتی ہیں جن کا عام زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ فارغ وقت کاٹنا یا مصروفیات سے فارغ وقت نکال کر کسی فلم کو دیکھنے کے لیے مختص کرنا، روتے بچے کو اسکرین دکھا کر چپ کروانا یا کسی اڈلٹ کا الجھنیں سائیڈ پہ رکھ کر کسی شو کو بِنج واچ کرنا کیا لگتا ہے کہ یہ سب بس وقت گزاری ہے اور اسکا انسان کی سائیکالوجی پر اور اس کی سوچ پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ انسان کا مزاج طبیعت اور جزبات بڑے غیر محسوس طریقے سے تشکیل پاتے ہیں اور ان میں فلموں کا امپیکٹ شاید سب سے زیادہ ہے۔

فلمیں غیر محسوس طریقے سے انسان کو پالتی ہیں ذہنی نشوونما کرتی ہیں، رشتوں کو کیسے دیکھنا ہے، دور دراز ملکوں کی زبان کلچر بلڈنگز اور لوگوں کے متعلق کیسی رائے قائم کرنی ہے، اخلاقیات عقائد اور نظریات کو کبھی چیلنج کرتی ہیں کبھی تقویت دیتی ہیں، کس بات پر غصہ کرنا ہے اور کیسے اس کا اظہار کرنا ہے، محبت کیسے کرنی ہے کس سے کرنی چاہیے، عزت کس کی کرنی ہے عزت کا اظہار کیسا ہوسکتا ہے اور کسے خاطر میں نہیں لانا، فلمیں جزبات کے کلسٹرز کو جگاتی ہیں خوف کیا ہے حیرت کیوں ہوتی ہے، ہمدردی جوش نقصان تخیل اور کامیابی کے پیمانے کس مقدار میں کہاں کہاں سیٹ کرنے ہیں، جسم میں پھوٹتے انجان اور بے نام نوخیز جنسی و ہیجانی جزبات کی اولین تشریح فلمیں کرتی ہیں اور ابھی فلمیں محض انٹرٹینمنٹ ہیں وقت گزاری ہیں امپیکٹ سے عاری ہیں؟

سینما بطور ایک اکائی کسی معاشرے کی مجموعی سوچ میں جھانکنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔ یہ بے شک علاج مہیا نہ کرے مگر اس کی نبض پکڑ کر سیاست سے سماجیات مذہب سے معاشیات میں پھیلی برائیوں کی تشخیص ہوسکتی ہے۔ محرومیوں سے اٹے، معاشی تنگیوں میں پسے سماج کے سینما میں جب غریب ہیرو امیر کا کالر پکڑ کر گھسیٹتا ہے تو افلاس اور ننگ کی ماری آڈینس کی آنکھ میں اترا لہو اور جسم میں دوڑتے جزبات بتاتے ہیں کہ اس کا مسئلہ کیا ہے۔

سینما اثر رکھتا ہے، فلمیں ساتھ رہ جاتی ہیں شخصیت میں جزب ہوجاتی ہیں اور آدمی خوش فہمی میں رہتا ہے کہ وہ وقت سے سیکھ رہا ہے۔

ہم نے بالی وڈ کا سینما دیکھا، ہمارے عزت ذلت کامیابی و ناکامی کے معیار کسی طور اسی کی دین ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہنوں کو کوئی چھیڑے تو بھائی سڑک کے بیچ چھیڑنے والوں سے بِھڑ جائے تعداد نہ دیکھے بس بھڑ جائے کیونکہ بھائی پنے کا تقاضا یہی ہے یہ ریکشن کس کی دین ہے؟ محبت کس سے ہونی چاہیے محبوب کے خدوخال کا نقشہ تک فلموں کا دیا ہے، محبت میں ناکامی کو چینلائز کیسے کرنا ہے محبت میں ناکامی کا کنسیپٹ فلم کا دیا ہے۔

بالی وڈ نے ایک بھرپور جنریشن کو بہت حد تک برباد کیا یا جینا سکھایا ہے یہ بحث الگ ہے مگر اس کا امپیکٹ ناقابلِ تردید ہے۔

اب نوے کا دور گزر چکا، تقاضے بدل چکے اچھا برا جو بھی دیکھا اور دکھایا وہ پرانا ہوچکا مگر بالی وڈ کا سینما زرا نہیں بدلا۔ وہ اب بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ لڑکیوں کے سامنے تیز موٹر سائیکل چلانے پر وہ خوش ہوتی ہیں، ماں کو محبوبہ کی طرح چاہنا سب سے عظیم کام ہے، بھائی بہنوں کو ہر وقت بچانے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں، غنڈے کی ماں بھی ظالم اور بے رحم ہوتی ہے۔ امیر کی کمائی پر غریب کا پورا حق ہوتا ہے اور اسکی بیٹی غریب گھر کے لڑکے کے لیے باپ کو چھوڑ سکتی ہے۔

سندیپ ریڈی وانگا کی دوسری فلم ریلیز ہوئی جس نے دیکھی وہ اس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ نوے کی ہی کوئی اجے میتھن اور اکشے کی فلم تھی؟ بالکل نہیں، کیونکہ سندیپ ریڈی سمیت تقریباً ہر بالی وڈ ڈائریکٹر کا سینما کل ملا کر یہی ہے فرق یہ ہے کہ پرانے ڈائریکٹرز نے کسی حد تک ایسا سینما اپنی نہ سمجھی اور زمینی حقائق کی ناسمجھی میں تشکیل دیا اور آج کے ڈائریکٹرز پوری سوچ سمجھ کے ساتھ یہ کر رہے ہیں۔

منفرد و جداگانہ رہنے کا اصول بڑا سادہ ہے یعنی کہ سنو سب کی کرو اپنی، پڑھو سب کو لکھو اپنا۔ ڈائریکٹر بھی دوسرے ڈائریکٹرز کی فلمیں دیکھتے ہیں، سراہتے ہیں انسپائر ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی طور ان کے کام میں اس کی کی جھلک مل ہی جاتی ہے۔ یہ سب نارمل ہے مگر سندیپ ریڈی وانگا۔

سندیپ ریڈی نے تیلگو انڈسٹری سے بالی وڈ کا رخ کیا اور ایک ایسے یونرا میں اوپر تلے نیچے ایسی دو فلمیں بنائی جو نئی نہیں بارہا سنایا لطیفہ ہے یعنی ایلفا میل ہیرو نے آنا ہے، بےبس لاچار ڈائیلاگ سے عاری لڑکی کو دوسرے ایلفا میل غنڈے سے چھڑوانا ہے اور فلم اسی انتہا کے بیچ چلتے ہوئے اختتام کی جانب بڑھنی ہے۔

اس محدود اور بے پناہ جزباتیت سے بھرے پلاٹ کے درمیان آخر کیا کچھ نیا نکل سکتا ہے، ڈائریکٹر کے پاس ایکسپیریمنٹ کے لیے یہی ہوسکتا ہے کہ وہ وائلنس بڑھا دے اور ہیجانی سینز کو ان کمفرٹیبل طریقے سے دکھا دے۔

وائلنس اور سیکس، آڈینس کھینچنے کا سب سے آسان کلیہ ہے مگر سینما کی جانب وائلنس اور سیکس سے آڈینس کو متوجہ کرنا فلمی ڈائریکٹر کا حربہ نہیں ہوسکتا، یہ دو ٹولز ان ڈائریکٹرز کے لیے ہیں جن کا نام لوگ نہیں جانتے اور جو فلمیں سینما اسکرین کے لیے نہیں بلکہ تخلیے میں دیکھنی والی آڈینس کے لیے بناتے ہیں۔

ایکٹر کا بطور انسان اس کی ایکٹنگ سے اندازہ لگانا مشکل ہے مگر ڈائریکٹر کی اپروچ بطور انسان اس کے کام میں جھلک جاتی ہے کہ وہ کس نظریے کا مالک ہے، اس کی پسند ناپسند ترجیحات خواہشات کا عکس کہیں نہ کہیں اس کی فلمیں ہوتی ہیں اور اس کی ان فلموں پر تنقید اس کی سوچ پر تنقید ہی گردانی جاتی ہے۔

پانچ سال بعد بحث یہ نہیں رہتی کہ فلم نے کروڑوں کا بزنس کیا یا پکوڑوں کا، کاغذ کے پھول میں گرو دت کبھی فلم کی کمائی کی وجہ سے نہیں ٹھکرایا گیا اور اوتار کے تذکرے میں جیمز کیمرون کبھی اس کی کمائی کی وجہ سے نہیں سراہا گیا۔

درجن بھر ہالی وڈ ڈائریکٹرز سے متاثر اور صرف انہی سے متاثر، نوے کی دہائی کے ہیرو ہیروئن ولن اور پلاٹ کو سٹیرائڈز کے کیپسول دے کر فیمنسٹ کو اپنا حریف مان کر فلم بنانے والے سندیپ ریڈی وانگا اور ان کی آڈینس کے لیے ستیہ جیت رائے نے کہا۔

This happens in India all the time. We have a fairly backward audience here, in spite of the film society movement and all that, if you consider the audience at large, it is a backward audience. An unsophisticated audience, exposed to the commercial Hindi cinema more than anything else.

Check Also

Israeli Parliman Aur Amit Halevi Se Mulaqat

By Mubashir Ali Zaidi