Youthiyon Ka Andaz e Guftgu
یوتھیوں کا اندازِ گفتگو
یوتھیوں (راقم الحروف بھی چھوٹے درجے کا ایک یوتھیا ہی ہے) کی گفتگو کا انداز جب بھی موضوع گفتگو بنتا ہے، تو فوراً بدتہذیبی، گالی گلوچ اور شائستگی کے فقدان کا ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے دانشور، تجزیہ کار، مولوی، مذہبی افراد اور صحافی گلہ کرتے ہیں کہ یہ نوجوان کسی بزرگ، کسی خاتون، کسی صحافی یا سیاست دان کا لحاظ نہیں کرتے۔ گالیاں دیتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں، ان کے علمی تجزیوں اور تجربات کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں اور سیاسی معاملات میں کسی طرح کا ادب و لحاظ روا نہیں رکھتے۔ یہ سب باتیں درست سہی اور اس سے انکار کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن اُن حالات کا تجزیہ بھی لازم ہے جن کی بدولت یوتھیے ایسا کرنے پر مجبور ہیں، یا ایسا کرنا ہی درست سمجھتے ہیں۔
یوتھیوں کے مطابق وہ ایک ایسے ڈیجیٹل عہد میں زندہ ہیں جہاں ریاست ہر میدان پر قابض ہے۔ پارلیمان، عدلیہ، میڈیا، انتخابات اور تمام سیاسی جماعتیں اس کے کنٹرول میں ہیں۔ ایسے میں اگر وہ کسی طاقتور ادارے یا ریاستی نظم کے خلاف براہِ راست آواز بلند کرتے ہیں، تو سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یوتھیے یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر وہ سڑک پر نکلیں گے تو گرفتار ہوں گے، احتجاج کریں گے تو مقدمات بنیں گے اور ریاستی اداروں کو براہِ راست نشانہ بنایا جائے تو "ریڈ زون" کراس ہو جائے گا۔ الغرض، وہ تمام ذرائع اور ادارے جن کے ذریعے عوام اپنے جائز مطالبات، شکایات اور تحفظات درج کروا سکتے ہیں، وہ سب یا تو بند کیے جا چکے ہیں یا خرید لیے گئے ہیں۔
ایسے میں صرف ایک میدان باقی بچتا ہے یعنی سوشل میڈیا اور یہاں بھی مکمل آزادی میسر نہیں ہے۔ طاقتور ادارے یہاں بھی نگرانی کرتے ہیں، ڈیجیٹل فارنزک ٹیمیں متحرک ہیں اور اگرچہ ریڈ لائنز واضح نہیں، مگر بہت قریب ہیں۔ چنانچہ یوتھیے براہِ راست طاقت پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے، لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ان soft targets کو ضرور نشانہ بنا سکتے ہیں جنھیں وہ طاقت کے پردہ دار نمائندے یا غیر اعلانیہ ترجمان سمجھتے ہیں۔
وہ صحافی، اینکر، سیلیبرٹی، این جی او ورکر، سوشل میڈیا دانشور، مولوی یا سیاست دان، جو انھیں ریاستی بیانیے کا نرم چہرہ دکھائی دیتے ہیں، ان کی زبانی یلغار کا ہدف بنتے ہیں۔
اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ موجودہ نظام جس قدر سفاک، عوام دشمن، جعلی اور کرپٹ ہے اور اس کا ایسا ہونا جس قدر عیاں اور tangible ہے، اس کے باوجود اس کی حمایت کا کوئی معقول، مدلل اور valid جواز تلاش کرنا ممکن نہیں۔ جیسے عالمی سطح پر اسرائیل کے حامیوں کی عقل و فہم پر انسان ششدر رہ جاتا ہے، ویسے ہی پاکستان میں موجودہ نظام کے حامیوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
یوتھیے اپنے محدود سیاسی شعور اور تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کو آنکھوں کے سامنے موجود حقیقت کا ادراک نہیں ہو پا رہا، وہ کسی دلیل یا مکالمے سے کیا بدلے گا؟ نتیجتاً، یوتھیے گالی دینے، تضحیک کرنے اور مذاق اڑانے کو ہی واحد فطری ردِعمل سمجھتے ہیں۔ وہ جیسے سنجے دت ایک فلم میں کہتا ہے کہ "کوئی بات تو تم لوگوں کے بھیجے میں جاتی نہیں ہے، سوائے گولی کے"۔ یوتھیے اسی منطق سے سمجھتے ہیں کہ ایسے نظام کے کھلے یا پوشیدہ حامیوں کے دماغ پر کوئی بات اثر نہیں کرتی، سوائے گالی کے۔
اس پس منظر میں کسی بھی یوتھیے کی گالی کو محض گالی کہنا ایک معنوی کوتاہی ہوگی۔ ان کے لیے گالی صرف توہین نہیں بلکہ اظہار کا واحد بچا ہوا ہتھیار ہے اور ایک ایسا ہتھیار جو اب میمز، لطیفوں، پیروڈی ویڈیوز، اے آئی تصاویر، ڈبنگ اور طنزیہ کیپشنز کی صورت میں سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سب ایک نیا mode of political communication and expression بن چکے ہیں۔
یوتھیے جانتے ہیں کہ ہاتھ اُٹھانا جرم ہے، سڑک پر نکلنا خطرہ ہے، عدالتی نظام بے حس ہے بلکہ طاقت کا غلام ہے، تو پھر طنزیہ زبان، لطیفہ، یا meme ہی ان کا سیاسی احتجاج ہے۔ Soft targets کو نشانہ بنانا اس لیے بھی آسان ہے کہ ان کے خلاف کسی براہِ راست مقدمے یا سزا کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ وہیں چوٹ کرتے ہیں جہاں درد بھی ہو اور نشان بھی نہ پڑے اور چونکہ یہ لوگ، یعنی دانشور، صحافی، اینکر پرسن، مولوی، اپنی عزتِ نفس، شائستگی اور تہذیب کے جھنجھٹ میں زیادہ حساس ہوتے ہیں، اس لیے ردِعمل بھی زیادہ دیتے ہے اور ان کا شور سب سے پہلے سنائی دیتا ہے۔
یوتھیے سمجھتے ہیں کہ وہ جس جبر کا شکار ہیں، اُس میں شائستگی اور آدابِ گفتگو، اشرافیہ کے تکیے بن چکے ہیں، جو اصل سوالات، اصل غصے اور اصل زخم سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جب بات کرنے، سننے، بولنے اور جینے کے تمام دروازے بند ہوں، تو وہ اس بند سماج کی دیوار پر گالیاں لکھتے ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں، وہ اب بھی سوال کر رہے ہیں اور وہ ذہنی طور پر مفلوج نہیں ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ، تمام تر جبر، پروپیگنڈے، جھوٹ، ملمع کاری اور دھوکے بازی کے باوجود، اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔

