Youm e Yakjehti e Kashmir
یوم یکجہتی کشمیر
جغرافیائی اور لسانی نیشنل ازم اپنی اصل میں انسانی تقسیم کا ایک بہترین فارمولا ہے جو کسی غیر (other) کی موجودگی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ غیر، ایک دشمن، غاصب، لٹیرا، نیشنل ازم کے جذبے کو وہ significant other مہیا کرتا ہے جس کے بنا کوئی بھی جذبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔
یوم یکجہتی کشمیر ایک ایسا دن جو قومی یکجہتی کا مظہر ہونا چاہیے تھا آج متنازع حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ علیحدگی پسند، نیشنل ازم اور سرخ انقلاب کی حامی جماعتیں اس دن کا بائیکاٹ کرتی ہیں اور سرکاری سطح پر اس کے منائے جانے کو اس کے متنازع ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ شناخت کا مسئلہ بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ لوگوں کو bind کرنے کا کوئی بیانیہ، نظریہ یا شخصیت منظرِ عام پر موجود نہیں۔
متعدد جائز و ناجائز وجوہات کی بدولت علیحدگی پسندوں کو مقبولیت اور عوامی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں اور گروہ سازشی کہانیوں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور کسی بھی طرح کی قربانی یا نقصان اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے میں نوجوانوں کیلئے پرکشش اور متاثر کن نعرے اور نظریات وہی ہیں جن کے نمائندہ افراد قربانی دینے کو تیار ہیں اور جائز حقوق کیلئے میدان میں موجود ہیں۔
الحاق پاکستان کی حامی جماعتیں اور افراد عملی و فکری سطح پر مکمل بانجھ پن کا شکار ہیں۔ محض فتویٰ بازی اور سازشی نظریات سے کام چلایا جا رہا ہے۔
یوں تو یہ تضاد بہت آسانی سے سامنے لایا جا سکتا ہے کہ انسانیت اور دنیا بھر کے محنت کشوں کی نمائندگی کے دعوے دار خود تقسیم در تقسیم کے ایک عمل میں کیوں پیش پیش ہیں۔ بلکہ اس کو نفرت اور دشمنی تک پہنچا رہے ہیں۔ لیکن اس فکری تضاد یا oxymoronic situation کو سامنے لانا مکمل بے سود ہے۔ زمینی حالات بھی تقسیم اور identity politics کے مواقف ہیں اور عوام دشمن ریاستی پالیسیاں اور حرکتیں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔
کشمیر، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس ملک کو بطور شناخت اپنانے میں مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ مسلم نیشنل ازم جو برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی و تہذیبی بقا کا واحد ذریعہ تھا اب مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بالخصوص اور بقیہ کشمیر میں عوام کی اکثریت بالعموم ہندوستان کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔ نہرو صاحب کی کوششوں سے کسی بھی ریاست کیلئے خودمختار رہنے کا آپشن موجود نہ ہونے کی وجہ سے ممکنہ آپشن دو ہی تھے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نام سے حاصل ہونے والے علاقے تو لوگوں کی indigenous movement کی بدولت آزاد ہوئے اور یہاں کی عوام نے overwhelmingly پاکستان کو بطور شناخت اپنایا۔
ریاست پاکستان پر اسٹیبلشمنٹ کے قبضے اور خارجہ و داخلہ پالیسی کی militarization نے جہاں بہت سے دیگر مسائل کو جنم دیا وہاں مسئلہ کشمیر کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ رہی سہی کسر کارگل ایڈونچر نے نکال دی۔ کارگل ایڈونچر مسئلہ کشمیر کے دفن ہونے کا آغاز تھا۔ جس پر آخری کیل گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوشش نے لگائی۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کا راستہ ہم نے دکھایا ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب مشرف صاحب جا چکے تھے اور اشفاق پرویز کیانی صاحب نے کشمیر پالیسی میں شفٹ کا اعلان کیا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں ریاستی طاقت پر قابض گروہوں نے آزاد کشمیر کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی سلوک نہیں کیا۔ اگر انھوں نے کشمیر میں ترقی نہیں ہونے دی تو ادھر بقیہ پاکستان میں بھی دودھ و شہد کی کوئی نہر نہیں نکالی۔ چار کشمیر کے لوگ مروائے ہیں تو دس پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مروا دیے ہیں۔ کشمیر میں اگر لوٹ مار کی ہے تو بقیہ پاکستان میں دس گنا کی ہے۔ آزاد کشمیر میں تو لوٹنے کیلئے بس درخت ہی تھے۔
طاقت و اقتدار پر قابض ٹولا عوامی امنگوں اور عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔ جب تک عوامی حمایت اور امنگوں کی ترجمان قیادت سامنے نہیں آتی یہ مسائل حل نہیں ہونے والے۔
عوام اور موجودہ نظام کے کرتا دھرتاؤں کے درمیان جو خلیج پیدا ہو چکی ہے اسے ڈنڈے مار کر ختم نہیں کیا جا سکتا اور یہ لوگ صرف کسی ایسے شخص کی ہی سن سکتے ہیں جس پر اعتبار کیا جا سکے۔ جو قوم کا نمائندہ ہو۔ جو قابل مواخذہ ہو۔
موجودہ طاقتوں کا حال یہ چل رہا ہے کہ کھلا خط پوری پاکستانی قوم نے پڑھ لیا ہے لیکن ان معصومین کو نہیں ملا۔ اب ان سے کیا امید رکھی جائے کہ یہ حالات بہتر کر سکتے ہیں یا انھی زمینی حقائق کا علم بھی ہے۔
پاک فوج زندہ باد۔

