Siasi Jamaten Aur Fikri Jamood
سیاسی جماعتیں اور فکری جمود
پاکستانی سیاست میں فکری جمود، شخصیت پرستی اور تنقید سے خوفزدگی کی معراج مذہبی سیاسی جماعتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ حقیقت گزشتہ چند برسوں کی سیاست نے مکمل طور پر آشکار کر دی ہے۔ ان جماعتوں کے کارکنان کی شعوری ساخت، اپنی تمام تر فکری آلودگی کے ساتھ واضح ہو چکی ہے اور اس نے عام آدمی اور مذہبی سیاسی کارکن کے درمیان خلیج کو بہت بڑھا دیا ہے۔ یہ جماعتیں دین کو سیاست میں نافذ کرنے کا دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن ان کا اندرونی مزاج ایسے تعطل کا شکار ہے جہاں اختلاف، تنقید اور سوال گویا ایمان میں خلل اور کمزوری کے مترادف ہیں۔
دیگر سیاسی جماعتوں میں فکری و عملی سطح پر پھر کسی ارتعاش کے آثار مل جاتے ہیں۔ کارکن قیادت سے ناراض ہوتے ہیں، اختلاف بھی ہوتا ہے اور دبے لفظوں میں ہی سہی سیاسی حکمت عملی پر مکالمہ جاری رہتا ہے۔ اس باب میں تحریک انصاف کو انفردیت حاصل ہے۔ اس کے کارکن پارٹی پالیسی پر اعتراض کرتے ہیں، سیاسی قیادت کو جوابدہ ٹھہراتے ہیں اور سخت عوامی دباؤ ڈال کر قیادت کو مجبور کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جذباتیت اور ہیرو ازم نہیں ہے۔ لیکن بقیہ تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں یہ ایک آزاد فکری خلا مہیا کرتی ہے جہاں عوام خود narrative building کا حصہ ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں اختلاف کرنا ایک فکری رویہ نہیں بلکہ کسی دینی مطالبے سے روگردانی یا عقیدہ بدلنے کے مترادف ہے۔ یہاں سیاست حکمت عملی یا حالات کے مطابق ڈھلنے والا عمل نہیں بلکہ مقدس اور غیر متغیر اصول ہے، جس کی مخالفت دینی شعائر سے روگردانی کے مترادف ہے۔
دیوبندی مکتبہ فکر کی نمائندہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر مولانا فضل الرحمن کی ذات unquestionable ہے کیونکہ مولانا محض ایک سیاستدان نہیں بلکہ اس مسلک کے اجتماعی وقار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کوئی معمولی دیوبندی عالم یا مدرسے کا مہتمم اگر مولانا سے اختلاف کر لے تو اس کے اخلاص، علم، عقل اور ایمان میں شک کیا جاتا ہے اور یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے۔ مولانا کے عوامی مخالفین کو یہودیوں کے ایجنٹ، وکٹورین، گمراہ، بد تمیز اور جاہل سمجھا جاتا ہے۔ گویا یہ فیصلہ کرنا کہ الیکشن میں کس سے اتحاد کیا جائے یا اہل غزہ کی مدد کیسے کی جانی چاہیے کوئی عمومی سیاسی فیصلہ نہیں کہ جس پر کوئی عامی رائے دے سکے۔ اس کا حق صرف اُسے حاصل ہے جسے "لاکھوں علماء" کا اعتماد حاصل ہو۔
مولانا کی ذات کے گرد ایک ایسا سسٹم قائم ہو چکا ہے جہاں سیاسی و غیر سیاسی مذہبی قیادت، بزرگوں کی روایات اور تاریخی استدلال سب ایک لڑی میں پرو دیے ہیں۔ مولانا پر اعتراض کرنا یا ان کو غلط کہنا گویا اس پورے "تقدسی سٹرکچر" کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ جماعت اور متعلقہ مذہبی قیادت پر ایک اجتماعی روحانی لبادہ چڑھا دیا گیا ہے، جہاں قیادت کا ہر فیصلہ الہامی کیفیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کا معاملہ اس سے بھی دگرگوں ہے۔ یہ جماعت سوشلسٹ طرز کی داخلی مرکزیت کی حامل ہے جہاں قیادت آتی تو جمہوری طریقے سے ہے لیکن ایک بار منتخب ہونے کے بعد امیر گویا جماعت کے اجتماعی شعور کی علامت بن جاتا ہے۔ اب یہاں کوئی بھی اختلافی رائے باہر کا راستہ نہیں دیکھ سکتی، اسے "اندر" رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ باہر نکل کر کوئی بھی بات کہنا گویا جماعت کے وقار کے خلاف ہے اور یہ وقار عمومی نہیں بلکہ نظریاتی و دینی مفہوم رکھتا ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں سیاست کا مقصد سیاسی اہداف کے حصول سے زیادہ قیادت کا دفاع ہے۔ سیاست، جو متغیر انسانی حالات میں فیصلہ سازی کا نام ہے، کو ایک ماورائی تقدس حاصل ہو جاتا ہے، جہاں مشورہ بھی محض تائید کے لبادے میں دیا جا سکتا ہے۔
نتیجتاً مذہبی سیاسی جماعتیں ایسا مذہبی شعور پیدا کرتی ہیں جہاں بنا سوچے، سمجھے اطاعت عبادت اور قیادت کی رضا دینی مطالبہ بن جاتا ہے۔ ایک بند، مقفل ذہنیت جو سوال سے گھبراتی ہے اور ہر اختلاف سے لرزاں ہے۔ جن کی گفتگو میں دلیل نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ہاں اخلاقی ججمنٹ اور فتویٰ بازی واضح اور ملفوف انداز میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔

