Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohrab Naseer
  4. Siasi Islam

Siasi Islam

سیاسی اسلام

برصغیر میں سیاسی اسلام کی کہانی تحریکِ جہاد سے شروع ہوتی ہے اور اس تحریک کا اصل نشانہ بیرونی قوت نہیں بلکہ خود عام المسلمین تھے۔ اسی تحریک کی کوکھ سے جو سیاسی اسلام نکلا، وہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی صورت میں سامنے آیا اور عشروں تک برصغیر کے مسلم شعور کو آلودہ کرتا رہا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں سیاسی اسلام کے باب کو مولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی عمل اور موقف نے خود اپنے ہاتھوں بند کیا اور آج بھارت میں مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ مکمل طور پر مولانا آزاد کے سیاسی عمل اور موقف کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ پاکستان کے حصے میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتیں آئیں، جنہوں نے اس خطے کے مسلم شعور کو مسلسل زنگ آلود رکھا اور سیاسی منظرنامے میں ہمیشہ عوام دشمنی اور طاقت کے آگے جھکنے کو اپنی اصل سیاست بنائے رکھا۔

رجیم چینج آپریشن کے بعد جو نئی سیاسی فضا قائم ہوئی، اس نے مذہبی سیاسی جماعتوں سے ان سب حیلوں اور بہانوں کو چھین لیا جو ان کے سیاسی کردار کو کسی نہ کسی حد تک جواز بہم پہنچاتے تھے۔ عوامی سطح پر آج مذہبی سیاسی جماعتیں مکمل طور پر غیر متعلق ہو چکی ہیں۔ یہ غیر ضروری بھی ہیں اور اپنی عوام دشمن حقیقت کے ساتھ برہنہ بھی ہو چکی ہیں۔ ریاستی طاقت کو بھی اب ان کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی اور وہ انہیں محض ایک ناکارہ پرزے کی طرح ساتھ لیے پھر رہی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے نئی آئینی ترمیمی سلسلے میں حصہ ڈالا۔ مولانا فضل الرحمن، جو ہمیشہ مفاہمتی، بزدلانہ اور طاقت پرست سیاست کے علَم بردار رہے، ستائیسویں آئینی ترمیم کو برا بھی سمجھتے ہیں مگر اس سے پہلے کی جانے والی ترامیم کا استعمال بھی کرتے ہیں اور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

پچھلی مرتبہ جب اسٹیبلشمنٹ کے پاس سیٹیں کم تھیں تو اسٹیبلشمنٹ نے چند اسلامی شقوں کے اضافے کے نام پر ان سے ووٹ لے لیا تھا۔ مولانا نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور مفتی تقی عثمانی نے مبارکباد بھی دے دی۔ لیکن اس بار مولانا کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ عدالتوں کی مدد سے مخصوص نشستیں ملنے سے حکومتی نمبر پورے تھے اس وجہ سے مولانا کو گھاس تک نہ ڈالی گئی۔ مولانا خود بھی مخصوص نشستوں کے کیس کے بڑے beneficiary ہیں، ایک ایسی جماعت جو کے پی اسمبلی میں سات حلقوں سے جیتی ہو مگر دس مخصوص نشستوں کی حقدار ٹھہرے، وہ کس منہ سے اس آئینی بندوبست کی مخالفت کر سکتی ہے؟

موجودہ سیاسی منظرنامے میں سب سے گھٹیا اور سستی نوکری جماعت اسلامی کے حصے میں آئی ہے۔ انہیں جلسے اور ریلیاں کرنے کی آزادانہ اجازت ہے، یعنی ان کا کام صرف شور مچانا، noise pollution پیدا کرنا۔ جماعت کے کارکنان کی فکری پستی، معروضی اندھے پن اور حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت کی کمی کا پورا یقین اسٹیبلشمنٹ کو ہے۔ اسی لیے انہیں کوئی درخورِ اعتنا پیشکش نہیں کی جاتی۔ انہیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جاؤ، کبھی بجلی کے بلوں پر چیخو، کبھی غزہ پر، کبھی مہنگائی پر۔ جاؤ، لوگوں کو الجھاؤ اور غیر ضروری مباحث میں گمراہ کرو اور ساتھ ساتھ ملک سے محبت اور اسلام کے قلعے کے نعروں کی آڑ میں ریاست کی ہر اہم پالیسی کا دفاع بھی کرتے رہو۔ اس بار تو یہ اس حد تک گر گئے کہ دو مسلمان ملکوں کے درمیان جنگ کو "necessary evil" قرار دینے لگے، گویا ظلم اور خونریزی کوئی عقلی ناگزیر عمل ہو۔

سیاسی اسلام اب دو صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد اپنے منطقی انجام پر ہے۔ اس کا آغاز مسلمانوں کے خون سے ہوا تھا اور اس کے خاتمے کا آغاز بھی ریاستی جبر کے تحت کلمہ گو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی خاموش اور علانیہ حمایت سے ہو رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن، جو رجیم چینج آپریشن کے علامتی سربراہ تھے، اب نیا چورن بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ حکومت کی پالیسیاں، جو ان کی نظر میں "یہودی ایجنٹ" کی پالیسیوں تھیں، آج بھی جاری ہیں۔ مگر مولانا کو یہ خیال صرف تب آیا جب ستائیسویں آئینی ترمیم میں انہیں کوئی اہمیت نہ ملی۔ گزشتہ تین برس کے ریاستی جبر میں وہ ہر سطح پر شریک اور حامی رہے، حتیٰ کہ مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کی سیٹیں سلب کیے جانے میں بھی وہ صفِ اول میں تھے۔ آج جب تمام حیلے ناکام ہو چکے ہیں تو مولانا کے پاس نہ جمہوریت کا چورن بچا ہے، نہ آئین کی بالادستی کا، نہ اپنی خود ساختہ حکمت و فراست کا۔

اب مولانا کی اور بدرجۂ اتم مذہبی سیاست کی، منزل سیاسی نابودیت ہے۔ اس نابودیت کے صرف دو ممکنہ راستے ہیں۔ اول وہ جو تحریکِ جہاد نے اختیار کیا تھا جب وہ انگریز کے لیے ایک بوجھ بن گئی اور بالآخر اپنے کمک فراہم کرنے والوں کے خلاف لڑنے کی کوشش میں مٹ گئی، یا پھر خاموش موت۔ دونوں صورتوں میں انجام ایک ہی ہے۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، ان کی حیثیت اب صرف ایک "سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن" کی رہ گئی ہے۔ ان کا سب سے بڑا اجتماع IT ٹریننگ کا ہونا کوئی اتفاق نہیں۔ قوم انہیں چندہ بھی دے گی، خدمات کا اعتراف بھی کرے گی، مگر ووٹ، نہ پہلے ملے، نہ اب کبھی ملیں گے۔ رجیم چینج اپریشن نے ملک کو بھلے نوے کی دہائی میں پہنچا دیا ہو، لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ سیاسی اسلام کے خاتمے کے آغاز کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قوم کو اس نہ صرف خوش ہونا چاہیے، بلکہ قوم اس پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan