Nokri Bhi Ghulami Hai?
نوکری بھی غلامی ہے؟
نوکری ایک عجیب طرح کی غلامی ہے، ایسی غلامی جس میں یہ طے کرنا بھی ادارے کے اختیار میں آ جاتا ہے کہ کون سا جذبہ ظاہر کرنا ہے، کس بات کا اقرار کرنا ہے اور کس موقع پر فطری ردعمل نہیں دینا۔ عام انسانی تعلقات اور آزاد ماحول میں ایک شخص دن بھر اور زندگی کے ہر موڑ پر مختلف حالات سے گزرتا ہے اور ایک باشعور وجود ہونے کے ناطے ان کے ساتھ تعامل (interact) کرتا ہے۔
یہ تعامل محض stimulus اور response پر قائم نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ غیر متوقع اور تناظر رکھنے والا عمل ہوتا ہے، جس میں فرد کی فطرت، اس کے ماضی کے تجربات، علم، فہم، worldview اور نفسی احوال سب شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ادارہ چونکہ فرد کو predictable یعنی قابلِ پیش گوئی بنانا چاہتا ہے، اس کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان سے اس کی فطرت کے بعض پہلو چھین لیتا ہے اور ان کی جگہ ایک standardized behavior pattern تھما دیتا ہے، جس میں یہ طے ہوتا ہے کہ ادارے کی نظر میں اہلکار کا مطلوبہ رویہ کیا ہونا چاہیے۔ مثلاً ایک سیکرٹری نے ہمیشہ سر کہنا ہے اور ادارے کے نمائندے کا ہر حکم ماننا ہے۔
بڑی پوسٹ پر بیٹھا شخص خود بخود زیادہ ویلیو کا حامل ہے، اس کا فیصلہ نافذ ہوگا اور اس کے پاس یہ طاقت بھی ہے کہ وہ آپ کے متعلق ادارے کو رپورٹ بھی دے سکتا ہے، جس میں آپ کے behavior کے نمبر درج ہوں گے یا وہ اسے کسی قابل پیمائش کیٹیگری کی شکل میں بیان کرے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ اس شخص سے آزاد انسانی تعلق نہیں رکھ سکتے۔ وہ کیسا ہی ہو، کیسی ہی خوبیوں یا خامیوں کا مالک ہو، آپ اس پر کھل کر رائے نہیں دے سکتے۔ کسی محفل میں بیٹھ کر اگر وہ کوئی احمقانہ بات کرے تو آپ اپنی فطری عادت کے مطابق ردعمل نہیں دے سکتے اور اگر کوئی لطیفہ سنائے تو آپ اس پر کھل کر ہنسنے کے لیے بھی ایک غیرمحسوس اجازت کے محتاج ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے دینی مدارس کا ڈھانچہ بھی ایسا ہی ہے۔ بظاہر وہ جدیدیت کے مقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اسی عقل کے مظاہر ہیں جو جدیدیت کے پیدا کردہ تمام اداروں میں موجود ہے۔ ان کے ہاں بھی طالب علم کو standardized behavior میں ڈھالنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اکابر کا احترام، ان پر غیر مشروط اعتماد، مسلکی وفاداری اور ادارے کے وضع کردہ ضابطے وغیرہ، یہ سب کچھ ایک منظم ادارہ جاتی منصوبہ بندی اور مقصد کے تحت طالب علم کے اندر inject کیا جاتا ہے۔ یہ اوصاف فطری طور پر پیدا نہیں ہوتے، بلکہ ادارہ انہیں تشکیل دیتا ہے اور ان کے ذریعے ایک ایسا ideal graduate تیار کرتا ہے جو ایک مخصوص سانچے میں ڈھلا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی مدارس بھی ادارہ جاتی منطق سے آزاد نہیں، بلکہ وہ بھی انسان کو ایک خاص قابلِ پیش گوئی اور کنٹرول شدہ پیکر میں ڈھالنے کے کارخانے ہیں۔
فرد کے فطری ردعمل کو دبانے اور اہلکاروں کے باہمی تعلق کو standardize کرنے کے لیے باقاعدہ management courses، lectures، workshops اور موٹیویشنل سپیکرز کے بیانات منعقد کراوائے جاتے ہیں۔ اچھا مینیجر کیسے بنا جاتا ہے اس پر ایک پوری انڈسٹری موجود ہے۔ ان کورسز کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان کو ایک standardized behavior میں ڈھالا جائے اور پھر اس رویے کو کسی پروگرام کے ذریعے measure کیا جا سکے۔ آج کے ادارے اتنے digitized ہو گئے ہیں کہ اب ایک سافٹ ویئر یہ طے کرتا ہے کہ انسان کتنا standardized ہے۔
ادارے میں رہتے ہوئے انسان نارمل behave نہیں کر سکتا۔ اسے اپنی شخصیت کے بہت سے فطری پہلو دبا دینے پڑتے ہیں اور یہی دباؤ ادارے کی نظر میں اسے مہذب civilized اور مثالی کارکن بننے میں مدد دیتا ہے۔ یہی ادارہ جاتی طاقت جب ریاستی سطح پر ظاہر ہوتی ہے تو وہ مہذب شہری (civilized citizen) پیدا کرتی ہے۔ وہ شہری ہے جو لائن میں کھڑا ہوتا ہے، ٹریفک سگنل نہیں توڑتا، کوڑا کرکٹ باہر نہیں پھینکتا، اونچی آواز میں میوزک نہیں بجاتا، اپنا لان صاف رکھتا ہے اور اختلاف یا احتجاج بھی صرف منظور شدہ طریقوں سے کرتا ہے۔ یہی وہ شخصیت ہے جسے ہمارے ہاں بعض اہلِ علم اصلی مسلمان کہتے ہیں جو اسلام کو نہیں مانتا۔
ادارے کا فرد پر کنٹرول غیر معمولی حد تک totalizing ہے۔ جدیدیت نے اداروں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان کی نفسی تشکیل (psychological formation) کو جس درجے تک پہنچا دیا ہے، وہ حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک بھی ہے۔ لیکن اس کنٹرول کی خصوصیت یہ ہے کہ ادارہ طاقت کو براہِ راست لاٹھی یا بندوق کے ذریعے استعمال نہیں کرتا بلکہ انسان جس ماحول میں جیتا اور سانس لیتا ہے وہ پوری فضا ایسی بنا دی جاتی ہے کہ سسٹم کے مطلوبہ رویے کو اختیار کرنا خود بخود فطری اور logical معلوم ہونے لگتا ہے۔ آپ خود کو ان رویوں سے الگ کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو غیر فطری، غیر مہذب، جاہل اور غیر منطقی سمجھا جاتا ہے۔
اس پورے عمل میں کوئی کھلا جبر دکھائی نہیں دیتا، حالانکہ جبر موجود ہے، جو جرمانے، ترقی نہ ملنے، مہذب شہری نہ مانے جانے یا دوسری soft punishments کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ افراد کی اکثریت یہ رویے خود اختیار کر لیتی ہے، انہیں اچھا سمجھ کر، مہذب ہونے کے تقاضے سمجھ کر اور بحیثیت homo sapiens اپنی ذمہ داری سمجھ کر۔ یہ سب کچھ دراصل سسٹم کی سکھائی ہوئی اخلاقیات ہیں، جو انسان کے اندر بچپن سے ہی انجیکٹ کی جاتی ہیں۔ کلاس رومز، کارٹونز، کتابوں، اشتہاروں، فلموں، سوشل میڈیا اور تجارتی اداروں کے ذریعے ان اخلاقیات کو انسانی فطرت کا حصہ بنا دیتا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر جدید انسان predictable بنتا ہے، کیونکہ سسٹم نے اس کی تشکیل اُن ہی parameters پر کی ہوتی ہے جو ناپے جا سکتے ہیں (measurable ہیں)۔
اسی لیے جدید معاشروں میں جب کوئی abnormal behavior سامنے آتا ہے تو اسے فوراً مادی علتوں کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے یعنی یہ شخص بچپن میں کیا دیکھتا رہا، کس ماحول میں پلا، اس کے دماغ کا کون سا حصہ زیادہ یا کم سرگرم ہے، کون سے کیمیکلز کے ذریعے اس رویے کو روکا جا سکتا ہے۔ یوں ایک طرف سسٹم انسان کو zombify کرتا ہے اور اسے مشین کی طرح ڈھالتا ہے اور دوسری طرف اگر وہ set pattern سے ہٹ جائے تو اسے numb کر دیتا ہے۔
بات نوکری اور جذبات کے اظہار سے شروع ہوئی تھی اور نہ جانے کہاں چلی گئی۔ لب لباب یہ ہے کہ نوکری ایسی غلامی ہے کہ جس میں آپ احمقانہ بات پر نہ تو طنزیہ ہنسی والا رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور نہ جاہلانہ سوچ پر مسکرا سکتے ہیں۔ آپ نے سر ہلانا ہوتا ہے، یا سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اور پھر اسی احمقانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ناکام کوشش کرنی ہوتی ہے۔

