Nibras e Nazar
نبراسِ نظر
نظری اور فکری سطح پر دیانت دار شخص کی تحریر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے تبصرے، تجزیے، نتائج اور دلائل میں اس کی ذات کہیں نمایاں نہیں ہوتی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ صاحبِ تحریر اپنے علم، اپنی دانش اور عقل مند ہونے کا کوئی دعویٰ تو دور، اس کا شائبہ تک قاری کے ذہن میں پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اس کی پوری توجہ اور سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، وہ محض اس کا ذاتی خیال نہیں بلکہ علم، تاریخ اور واقعہ یا عمل (phenomenon) کے بدیہی پہلوؤں سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔
یہ بھی نہیں کہ مصنف اپنا فکری قبلہ واضح نہ کر رہا ہو یا اس کا اظہار نہ کرتا ہو، بلکہ وہ اپنے قبلے کو تحریر کے ہر موڑ پر پوری قوت سے own کرتا ہے۔ تاہم اس کی دیانت کا مظہر یہ ہے کہ وہ اپنے فکری رجحان کو دلیل اور شواہد کی روشنی میں پیش کرتا ہے، محض ذاتی عقیدے یا دعوے کی بنیاد پر نہیں۔ تحریر میں اس کے جذبات، اس کا جمالیاتی ذوق اور اس کا المیہ بھی بین السطور جھلکتا ہے، لیکن یہ عناصر اس کے علم اور تجزیے پر غالب نہیں آتے، بلکہ انہیں ایک انسانی رنگ عطا کرتے ہیں۔
دو دن ہونے کو ہیں کہ قبلہ استاد محمد دین جوہر صاحب کی کتاب موصول ہوئی ہے۔ اب فرصتِ مطالعہ شاذ ہی نصیب ہوتی ہے، مگر اس کتاب کو کھولنے کے بعد اس کی طباعت، اس میں استعمال ہونے والا ڈیجیٹل رسم الخط اور سب سے بڑھ کر جوہر صاحب کا اسلوبِ تحریر قاری کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ گزشتہ دو دن سے یہ کتاب موبائل کی طرح ساتھ رہتی ہے۔ مدتوں بعد یہ کیفیت ہے کہ کسی کتاب کو پڑھتے ہوئے بیک وقت اداسی بھی ہو، غم بھی، حیرت بھی اور مسرت بھی۔
اب تک صرف دو مضامین پڑھنے کی مہلت ملی ہے (کتاب کا پہلا مضمون دو تین بار پہلے ہی پڑھا جا چکا تھا)۔ ان ہی چند مضامین کی روشنی میں یہ کتاب ہمارے بطورِ قوم و ملت المیے کی آئینہ دار بھی ہے، امید کی کرن بھی اور قابلِ فخر ماضی کی نقیب بھی۔ اسے پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم جاہل نہیں بلکہ اندھے اور گونگے ہیں، جوہر صاحب کی مخصوص اصطلاح میں ہم "حالتِ انکار" میں ہیں۔ جاہل شخص بھی اپنی آنکھوں کے سامنے گزرے واقعات اور اپنے تجربات سے کچھ نہ کچھ سبق اخذ کر لیتا ہے، لیکن ہم ایسے اندھے، گونگے اور بہرے ہیں کہ حقیقت کو دیکھنے، سننے اور کہنے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے "اہلِ علم" اس اندھے پن کے سب سے بڑے نمائندے ہیں اور یہ کیفیت ان پر کسی حادثاتی جبر کے نتیجے میں نہیں بلکہ شعوری انتخاب کے طور پر مسلط ہے۔ قوم و ملت تو بسا اوقات حالات کی سختی میں کچھ نہ کچھ دیکھ لیتی ہے، مگر ہمارے اہلِ علم، بلا تفریق مسلک و نظریہ، اس لائق ہی نہیں رہے کہ علم کے کسی حقیقی منبع سے اپنا رشتہ جوڑ سکیں۔ وہ شکست خوردہ ہیں اور جدیدیت کی دروں کاری (internal colonization) کے باعث عقل و علم کے کسی زندہ تصور سے نابلد ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم استعمار اور جدیدیت کے بارے میں کوئی علمی موقف ضرور رکھتے۔
ہمارے علما، دانشور اور ماہرینِ تاریخ و اسلام کے پاس محض نعرے ہیں جنہیں وہ بار بار دہراتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہمارے پاس مغرب کے خلاف ایک اخلاقی مقدمہ ہے، جسے ہم بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں کہ وہاں یہ یہ برائیاں ہیں۔ لیکن جہاں تک ترقی، تحقیق، نظامِ زندگی، قوانین، ریاست اور انتظامی ڈھانچے کا تعلق ہے، ہم مغرب ہی کو نمونہ مانتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ اس نظام میں"حدود" کا اضافہ کر دیا جائے۔ بینکوں کو ہم نے "اسلامی" کر لیا ہے تو گویا معیشت کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ قراردادِ مقاصد کی مدد سے ریاست کے ماتھے پر اسلام کا لیبل بھی لگا دیا ہے تو جدید ریاست سے اختلاف بھی باقی نہ رہا اور الحمد للہ کوئی ایسا مسئلہ یا موقف نہیں جس کے نام پر ہم نے جماعت یا تنظیم نہ بنائی ہو۔ یہی گزشتہ تین صدیوں کی ہماری علمی دادِ سخن کا خلاصہ ہے۔
اس پس منظر میں جوہر صاحب کی تحریریں اس موذن کی اذان کی مانند ہیں جو فرض کی طرف بلا رہا ہے، لوگوں کو جگا رہا ہے، مگر مسجد پر قابض لوگ شور مچا رہے ہیں کہ یہ اذان غلط ہے اور اٹھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے لیے علم پیدا کرنے، علم سے نسبت رکھنے اور دنیا کو مسلمان اور نائب کی نگاہ سے دیکھنے کا فرض گویا ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے اسلاف یہ ذمہ داری ادا کر گئے، اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہم بس لیٹے رہتے ہیں اور ان کے چھوڑے ہوئے ورثے کو چباتے ہیں یا پھر اس میں جدیدیت کی ملاوٹ کرکے عوام کو بانٹتے رہتے ہیں۔ نئی علمی محنت، نئی فکری کاوش اور نئے زاویۂ نظر کی بیداری ہمیں ناگزیر مشقت محسوس ہوتی ہے۔ یہی وہ غفلت ہے جس نے ہمارے اہلِ علم کو اندھا، بہرا اور گونگا بنا دیا ہے اور اسی حالتِ انکار کو قوم و ملت کی تقدیر کر دیا ہے۔
آخر میں ایک بار پھر کتاب کی طباعت اور ڈیجیٹل رسم الخط کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کتاب کے مطالعے کے دوران آنکھوں پر کسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایک خوشگوار احساس اور لطافت پیدا ہوتی ہے۔

