Manzoor Hussain Khan Rukhsat Hue
منظور حسین خان رخصت ہوئے
اس دور میں زندگی کا تجربہ (human experience) ایک طلسم، ایک مکڑی کے جال کے جیسا ہے۔ جس میں انسان خود تک کو بھول جاتا ہے۔ خدا کہاں یاد آئے گا۔ ہم artificial reality میں جی رہے ہیں۔ اس میں موت بھی ایک خبر ہے۔ breaking news نو بجے کے خبرنامے کی طرح جسے انسان چند لمحوں بعد بھول جاتا ہے۔
لیکن موت ہی وہ واحد واقعہ ہے جو اس طلسم کو چند لمحوں کیلئے ہی سہی ہماری انکھوں سے ہٹا دیتا ہے۔ خاص کر کسی ایسے شخص کی موت جو اپنے کردار اور وجود میں ایسا عظیم اور مکمل ہو کہ اس کا چلے جانا آپ کی زندگی میں بہت واضح خلا پیدا کر دے۔
گزشتہ روز ہمارے تایا سردار منظور حسین خان ہم سے رخصت ہو گئے۔ میں وہ دوسری پیڑھی ہوں جس نے اپنے والدین سے تایا جان کی والدین جیسی عزت و فرمانبرداری کا مطالبہ ورثے میں پایا ہے۔ میرے والد صاحب اور دادا دونوں کا اپنی اولادوں کو یہ unspoken اعلان رہا ہے کہ اگر اس شخص کی عزت، احترام اور فرمانبرداری ہم سے ذرہ برابر کم ہوئی تو ہماری طرف سے آزاد ہو۔ ہم سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ جیسے لوگ اپنے والدین کی عزت و جان کی حفاظت کرتے ہیں بس ایسے ہی تایا جان ہیں۔ ان کی عزت ہماری عزت۔ ان کی حفاظت خود سے مقدم ہے۔ ہم نے اپنے والد اور چچاؤں کو ایسا کرتے تھے اور خود بھی اس مطالبے کی حتیٰ المقدور لاج رکھی ہے۔
اوائل عمری میں دادا اور چچاؤں کی تایا جان سے ایسی تعلق داری اور محبت کی وجوہات کا علم تھا اور نہ ہی سمجھ۔ اب جب خود زندگی کا تجربہ ہوگیا، یہ دیکھ لیا ہے کہ اس دنیا میں جینا کسے کہتے ہیں، تو احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ جیتے رہتے تو میرا بھی اپنی اولاد سے یہی مطالبہ ہوتا۔ وہ اس سے بھی زیادہ عزت و محبت کے حقدار تھے۔
ان کی وفات پر چار سے پانچ اضلاع کے لوگوں کا جمع ہونا اور بے ساختہ رونا حیران کن تھا غیر متوقع ہرگز نہ تھا۔ اکثریت رو رہی تھی کہ آج وہ شخص چلا گیا جو ہم سے والد جیسی شفقت و محبت کرتا تھا، چند تھے جو اپنے بھائی اور قابل اعتماد ساتھی کے بچھڑ جانے پر اشکبار تھے (کہ اب ان کے ساتھیوں کی اکثریت رخصت ہو چکی تھی) اور بچوں کی طرح روتے بلکتے لوگوں کی اکثریت ایسی تھی جن کی نزدیک رونا مردوں کا شیوہ نہیں۔
انتہائی متحرک سیاسی، سماجی اور معاشرتی کردار کی حامل شخصیت کو آخری وقت میں ایسی قبولیت حاصل ہونا انتہائی غیر معمولی بات ہے۔
تایا جان برصغیر میں مسلم تہذیب اور کشمیری ثقافت و روایات کے آخری نمائندہ شخص تھے۔ ان کی ذات میں وہ تمام اعلیٰ انسانی اقدار و اوصاف مجتمع تھے جو ہماری تہذیب و ثقافت کی خصوصیات ہوا کرتی تھیں۔ ذات پات، برادری اور مسلکی و سیاسی شناختوں سے بالا تر، صلہ رحمی، ایثار، رازداری، بہادری، محبت، شفقت، علم دوستی، تعلق داری الغرض گَزرے وقتوں کے وہ سبھی اوصاف حمیدہ جن کا وجود اب ناپید ہوتا جا رہا ہے، ان کی ذات میں دستیاب تھے۔
روبہ زوال معاشروں اور قوموں کی روش کے عین مطابق ہم بطور خاندان، بطور برادری اور اہل علاقہ ان کی قدر نہ کر سکے۔ ہم نے انھیں پتھر بھی مارے، ان کے خلاف گھٹیا نعرے بازی بھی ہے، اشتہار بھی لگائے، رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح ان کی عزت و غیرت پر ہاتھ بھی ڈالا اور ان کے مقابلے میں بہت چھوٹے اور معمولی لوگوں کی حمایت بھی کی۔
اس سب کے باوجود وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ علاقے کا بھلا سوچتے رہے۔ بدترین سے بدترین دشمن سے بھی ظلم و حق تلفی نہ ہونے دیتے تھے۔ افسوس کہ انھیں دشمن بھی ایسے ملے کہ کردار و صلاحیتوں میں تایا جان کے سامنے بونے لگتے تھے۔ اپنے لیے کبھی کچھ مانگ نہ سکے۔ خدا نے دولت نہیں دی، کوئی باقاعدہ عہدہ نہیں تھا لیکن ہم ان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہمارا علاقہ ان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ آخری شخص تھے جو لوگوں میں اپنی دولت، طاقت یا اثر و رسوخ کی وجہ سے مشہور و مقبول نہیں تھے۔
پورے آدمی تھی جیسے سلیم احمد پورے آدمی کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت پر زندگی کا کوئی ایک پہلو کبھی حاوی نہیں ہوا۔ وہ بیک وقت ایک سیاستدان، ایک بھائی، ایک بیٹا، ایک سماجی رہنما اور ایک خیرخواہ شخص تھے۔ ان کے تمام تعلقات حقیقی انسانی تعلقات تھے کہ جہاں اصول اور صلہ رحمی و ہمدردی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جس شخص سے جھگڑا چل رہا ہوتا تھا اسی کا بھلا بھی سوچ رہے ہوتے تھے۔
خدا نے بلا کی ذہانت و یاداشت سے نوازا تھا۔ بیسیوں برادریوں اور خاندانوں کے شجرہ نسبت ازبر تھے، ان کی قبریں، ان کے متعلقین کی تفصیل، ان کے رشتے ناتے اور بزرگوں کے واقعات اور تاریخ نوک زبان پر ہوتی تھی۔ کشمیر کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جس کی تاریخ اور تفصیل انھیں معلوم نہ ہو۔ واقعات کی جزئیات اور تفاصیل اس دلکش پیرائے میں بیان کرتے تھے کہ انسان گھنٹوں سنتا رہے دل نہیں بھرتا تھا۔ اکثر تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ جس محفل میں وہ ہیں وہاں کوئی اور کیوں بول رہا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ جمہوریت ہے، لوگوں کو سننا پڑتا ہے چاہے وہ کتنی ہی فضول بات کیوں نہ کر رہے ہوں۔
بڑے آدمی کی طرح اچانک ہی چلے گئے۔ ان کے لیے مرنا عام سی بات ہو جیسے۔ مرنے سے پہلے اپنی قبر کی جگہ کی نشاندہی کی (اپنے ماموں، میرے دادا کی قبر کے ساتھ دفن ہونا چاہا)، قبر کے پتھروں کی نشاندہی کی، لوگوں کو گواہ بنا کر گئے کہ جس نے میرے ساتھ زیادتی کی، دل شکنی کی سب کو اللہ کی خاطر معاف کرتا ہوں۔ ساری زندگی کی خوداری آخر وقت میں بھی ساتھ رہی۔ نہ بیمار ہوئے، نہ تیمارداری کا موقع دیا۔ خود تعلق داری اور تیمارداری کا عالم یہ تھا اپنے دوستوں میں مشہور تھے کہ اسے جب کال کرو یہ کسی ہسپتال میں ہوتا ہے۔ سینکڑوں لوگوں کے آخری وقت کے رازدان اور ساتھی۔ لیکن خود دور اپنے دوستوں میں جا کر فوت ہوئے اور جان بھی مسجد میں نماز کی حالت میں نکلی۔ شاید باوضو رہنے اور ہر حال میں نماز کی پابندی کا انعام تھا کہ خدا سے ملاقات نماز کی حالت میں ہوئی۔
ہماری بدقسمتی اور بدبختی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ اللہ نے ایسا بڑا آدمی ہم میں پیدا کیا اور ہم نے ایسی ناقدری کی کہ وہ رخصت ہوتے وقت ہم سب سے دور تھا۔ شاید ہم سے زیادہ باہر والوں کو ان کی قدر تھی۔
انھیں دفن کرتے ایسے لگا جیسے اپنی ذات و وجود کا بہت بڑا حصہ ان کے ساتھ دفن ہوگیا ہے۔ جیسے کسی نے ہمارا سائبان چھین لیا ہے۔ جیسے ہم یتیم ہو گئے ہیں۔
ان کی زندگی کے درجنوں ایسے پہلو ہیں جن پر گھنٹوں بولا جا سکتا ہے، لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اب کیا فائدہ۔
اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت، صلاحیت و توفیق عطاء فرمائے۔

